مشکوٰۃ المصابیح - تراویح کا بیان - حدیث نمبر 1275
وَعَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ قَالَ اَمَرَ عُمَرُ اُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ وَتَمِیْمًا الدَّارِیَّ اَنْ یَّقُوْمَا لِلنَّاسِ فِیْ رَمَضَانَ بِاِحْدیٰ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً فَکَانَ الْقَارِیُّ یَقْرَأُبِالْمِیِئْنَ حَتّٰی کُنَّا نَعْتَمِدُ عَلَی الْعَصَاءِ مِنْ طُوْلِ الْقِیَامِ فَمَا کُنَّا نَنْصَرِفُ اِلَّا فِی فُرُوْعِ الْفَجْرِ۔( رواہ مالک)
تراویح کی رکعتوں کی تعداد
حضرت سائب ابن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت ابی بن کعب اور حضرت تمیم داری کو حکم دیا کہ وہ رمضان (کی راتوں) میں لوگوں کو (تراویح) کی گیارہ رکعت نماز پڑھائیں اور (اس وقت) امام (تراویح) میں وہ سورتیں پڑھا کرتا تھا جن میں سے ہر ایک میں ایک سو سے زیادہ آیتیں ہیں، چناچہ قیام کے طویل ہونے کی وجہ سے ہم اپنے عصاء کا سہارا لے کر کھڑے ہوتے تھے اور فجر کے قریب نماز سے فارغ ہوتے تھے۔ (مالک)

تشریح
حضرت ابی بن کعب اور حضرت تمیم داری دونوں کو امامت کے حکم کا مطلب یہ تھا کہ کبھی وہ امام بنیں اور کبھی وہ، لہٰذا اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے دونوں کو باری باری نماز پڑھانے کا اس طرح حکم دیا ہو کہ کچھ رکعتیں حضرت ابی بن کعب پڑھائیں اور کچھ رکعتیں تمیم داری پڑھائیں اور یہ احتمال بھی ہے کہ دونوں کو الگ الگ راتوں میں امامت کا حکم دیا ہو بایں طور کہ کچھ راتوں میں ایک امامت کرے اور کچھ راتوں میں دوسرا۔ اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تراویح کی گیارہ ہی رکعتیں ہیں جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے حکم دیا، حالانکہ علماء لکھتے ہیں کہ یہ بات پایہ ثبوت کو صحت کے ساتھ پہنچ چکی ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ کے عہد خلافت میں تراویح کی بیس رکعتیں پڑھی جاتی تھی لہٰذا اس حدیث کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ حضرت عمر ؓ کبھی تو بیس رکعتیں پڑھتے ہونگے اور کبھی گیارہ رکعتوں پر ہی اکتفا کرتے ہوں گے۔ یا یہ کہ رسول اللہ ﷺ سے چونکہ تراویح کی گیارہ رکعتیں پڑھنی ثابت ہوئی ہیں اس لئے رسول اللہ ﷺ کے عمل مبارک سے مشابہت کے قصد سے حضرت عمر ؓ نے بعض راتوں میں گیارہ رکعتیں پڑھنے کا حکم دیا پھر اس کے بعد تراویح کی بیس رکعتیں ہی مستقل طور پر مقرر کی گئیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ سے بھی ایک روایت میں تیس رکعتیں پڑھنی منقول ہوئی ہیں جن میں تین رکعتیں وتر کی شامل ہیں۔ نفل نماز میں سہارا لینا جائز ہے حدیث کے الفاظ کنا نعتمد علی العصاء کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت تراویح میں اتنی طویل قرأت کی جاتی تھی کہ ہم لوگ قیام میں کھڑے کھڑے تھک جاتے تھے جس کی وجہ سے اپنے اعصاء سے ٹیک لگا کر کھڑے ہونے پر ہم لوگ مجبور ہوتے تھے چناچہ اس سلسلے میں مسئلہ یہ ہے کہ نفل نمازوں میں یوں تو عام طور پر بھی لیکن خاص طور پر ضعف کی حالت میں ٹیک لگانا یا کسی چیز کا سہار لے لینا جائز ہے۔
Top