مشکوٰۃ المصابیح - تراویح کا بیان - حدیث نمبر 1272
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ فَقَدْتَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لَیْلَۃً فَاِذَا ھُوَ بِالبَقِیْعِ فَقَالَ اَکُنْتِ تَخَافِیْنَ اَنْ یَخِیْفَ اﷲُ عَلَیْکِ وَرَسُوْلُہ، قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اِنِّی ظَنَنْتُ اِنَّکَ اَتَیْتَ بَعْضَ نِسَائِکَ فَقَالَ اِنَّ اﷲَ تَعَالٰی یَنْزِلُ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ اِلَی السَّمَآءِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لِاَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ وَزَادَ رَزِیْنٌ مِمَّنِ اسْتَحَقَّ النَّارَ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ سَمِعْتُ مُحَمَّدً یَعْنِیْ اَلْبُخَارِیَّ یُضَعَّفُ ھٰذَا الْحَدِیْثَ۔
ماہ شعبان کی پندرویں شب کی فضیلت
اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک ( مرتبہ اپنی باری میں) رات کو میں نے سر تاج دو عالم ﷺ کو بستر پر نہیں پایا (جب میں نے تلاش کیا تو) یکایک کیا دیکھتی ہوں کہ آپ ﷺ بقیع میں موجود ہیں (مجھے دیکھ کر) آپ ﷺ نے فرمایا کیا تمہیں اس بات کا خوف تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! مجھے خیال ہوا تھا کہ آپ ﷺ اپنی کسی اور بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نصف ماہ شعبان کی رات (یعنی شعبان کی پندرہویں شب) کو آسمان دنیا (یعنی پہلے آسمان) پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنو کلب (کی بکریوں) کے ریوڑ کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں گناہ بخشتا ہے اور رزین نے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ مومنین میں سے) جو لوگ دوزخ کے مستحق ہوچکے ہیں انہیں بخشتا ہے۔ امام ترمْذی فرماتے ہیں کہ میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)

تشریح
بقیع مدینہ منورہ میں ایک قبر ستان کا نام ہے اسی کو جنت البقیع بھی کہتے ہیں۔ یہاں یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کیا گیا ہے ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ اسی واقعہ کو ذرا تفصیل کے ساتھ اس طرح بیان فرماتی ہیں کہ جب میں نے رسول اللہ ﷺ کو رات کو اپنی باری کے موقعہ پر بستر پر نہیں پایا تو میں نے اپنے بدن پر اپنے کپڑے لپیٹے اور آپ ﷺ کے نقش قدم ڈھونڈتی ہوئی باہر نکل گئی اچانک میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ بقیع میں سجدے میں پڑے ہوئے اور سجدہ بھی آپ ﷺ نے اتنا دراز کیا کہ مجھے تو یہ شبہ ہوا کہ (خدا نخواستہ) آپ ﷺ کا وصال ہوگیا ہے جب آپ ﷺ ( بہت دیر کے بعد سجدے سے اٹھ کر سلام پھیر چکے تو میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تم ڈرتی تھی کہ اللہ اور اس کا رسول تمہارے ساتھ ظلم کا معاملہ کریں گے، یعنی تمہیں یہ خیال ہوگیا تھا کہ میں تمہاری باری چھوڑ کر کسی اور بیوی کے ہاں چلا گیا ہوں؟ ( اس جملے میں اللہ کا ذکر زینت اور حسن کلام کے لئے ہے) اس کے بعد حضرت عائشہ کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ یا رسول اللہ! میں نے یہ گمان نہیں کیا (نعوذ با اللہ) اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے میرے ساتھ ظلم کا معاملہ کیا ہے بلکہ مجھے تو خیال ہوگیا تھا کہ یا تو آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم سے یا اپنے ہی اجتہاد سے میرے پاس سے اٹھ کر کسی دوسری بیوی کے ہاں چلے گئے ہیں۔ حضرت علامہ ابن حجر حضرت عائشہ کے اس جواب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ خدانخواستہ اگر حضرت عائشہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے جواب میں نعم (جی ہاں) فرما دیتیں تو معاملہ اتنا نازک تھا کہ حضرت عائشہ کا یہ جواب کفر شمار ہوتا مگر حضرت عائشہ اپنی فراست اور ذہانت سے صورت حال سمجھ گئیں اس لئے جواب انہوں نے اس پیرایہ سے دیا کہ اس کی پریشانی و حیرانی کا عذر بیان کیا پھر رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ کے پاس سے اٹھ آنے کا عذر بیان کیا کہ شعبان کی پندرہویں شب کو اللہ جل شانہ آسمان دنیا پر نزول جلال فرماتا ہے یعنی اس کی رحمت کاملہ کا فیضان اس بیکراں طور پر ہوتا ہے۔ کہ قبیلہ بنو قلب کے ریوڑ کے جتنے بال ہیں اس سے بھی زیادہ لوگوں کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ وقت چونکہ برکات ربانی اور تجلیات رحمانی کے اترنے کا تھا اس لئے میں نے چاہا کہ ایسے بابرکت اور مقدس وقت میں اپنی امت کے لوگوں کلئے بخشش کی دعا کروں چناچہ میں جنت البیقع میں پہنچ کر اپنے پروردگار کی مناجات اور اس سے دعا مانگنے میں مشغول ہوگیا۔ یہ حدیث ضعیف ہے جیسا کہ آخر روایت میں حضرت امام ترمذی کے قول سے معلوم ہوا۔ لیکن جیسا کہ پہلے بھی کئی جگہ بتایا جا چکا ہے کہ فضائل اعمال کے سلسلہ میں ضعیف احادیث پر عمل کرنا بالا تفاق جائز ہے۔ یہ حدیث اگرچہ اس باب سے کوئی مناسبت نہیں رکھتی لیکن معنوی طور پر اس حدیث کو باب سے مناسبت یہ ہے کہ شعبان کی پندرہویں شب بھی اس فضیلت و برکت کی زیادتی کی بناء پر قیام رمضان کے مقدمہ کی مانند ہے۔ وا اللہ اعلم۔
Top