مشکوٰۃ المصابیح - تراویح کا بیان - حدیث نمبر 1271
وَعَنْ اَبِی ذَرٍّ قَالَ صُمْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمْ یَقُمْ بِنَا شَیْئًا مِنَ الشَّھْرِ حَتّٰی بَقِیَ سَبْعٌ فَقَامَ بِنَا حَتّٰی ذَھَبَ ثُلُثُ اللَّیْلِ فَلَمَّا کَانَتِ السَّادِسَۃُ لَمْ یَقُمْ بِنَا فَلَمَّا کَانَتِ الْخَامِسَۃُ قَامَ بِنَا حَتّٰی ذَھَبَ شَطْرُ اللَّیْلِ فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ لَوْ نَفَّلْتَنَا قِیَامَ ھٰذِہِ اللَّیْلَۃِ فَقَالَ اِنَّ الرَّجُلَ اِذَا صَلَّی مَعَ الْاِمَامِ حَتّٰی یَنْصَرِفَ حُسِبَ لَہُ قِیَامُ لَیْلَۃِ فَلَمَّا کَانَتِ الرَّابِعَۃُ لَمْ یَقُمْ بِنَا حَتّٰی بَقِیَ ثُلُثُ اللَّیْلِ فَلَمَّا کَانَتِ الثَّالِثَۃُ جَمَعَ اَھْلَہُ وَنِسَاءَ ہُ وَالنَّاسَ فَقَامَ بِنَا حَتّٰی خَشِیْنَا اَنْ یَفُوْتَنَا الْفلَاَحَ قُلْتُ وَمَا الْفَلَاحُ قَالَ السَّحُوْرُ ثُمَّ لَمْ یَقُمْ بِنَا بَقِیَّۃَ الشَّھْرِ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدُ وَ التِّرْمِذِیُّ وَالنَّسَائِیُّ وَرَوَی ابْنُ مَاجَۃَ نَحْوَہ، اِلَّا انَّ التِّرْمِذِیَّ لَمْ یَذْکُرْ ثُمَّ لَمْ یَقُمْ بِنَا بَقِیِّۃَ الشَّھْرِ۔
رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں میں رسول اللہ ﷺ کی عبادت
حضرت ابوذر ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے (رمضان میں) سر تاج دو عالم ﷺ کے ہمراہ روزے رکھے، آپ ﷺ نے مہینے کے اکثر ایام میں ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا (یعنی آپ ﷺ نے رمضان کی راتوں میں ہمارے ساتھ فرض نماز کے علاوہ کوئی اور نماز نہیں پڑھی) یہاں تک کہ جب سات راتیں باقی رہ گئیں (یعنی تئیسویں آئی) تو آپ ﷺ نے ہمارے ساتھ تہائی رات تک قیام (یعنی ہمیں نماز تراویح پڑھائی) جب پانچ راتیں باقی رہ گئیں (یعنی پچیسویں شب آئی) تو آپ نے ہمارے ساتھ آدھی رات تک قیام کیا میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ کاش آج کی رات قیام اور زیادہ کرتے (یعنی اگر آپ ﷺ آدھی رات سے بھی زیادہ تک ہمیں نماز پڑھاتے رہتے تو بہتر ہوتا) آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب کوئی آدمی (فرض) نماز امام کے ساتھ پڑھتا ہے تو اس سے فارغ ہو کر واپس جاتا ہے تو اس کے لئے پوری رات کی عبادت کا ثواب لکھا جاتا ہے (یعنی عشاء اور فجر کی نماز جماعت سے پڑھنے کی وجہ سے اسے پوری رات کی عبادت کا ثواب ملتا ہے نیز یہ کہ نوافل کا اسی وقت تک پڑھتے رہنا مناسب اور بہتر ہے جب تک دل لگے) جب چار راتیں باقی رہ گئیں (یعنی چھبیسویں شب آئی) تو ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا یہاں تک کہ تہائی رات باقی رہ گئی) ہم اسی انتظار میں لگے رہے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائیں اور ہمیں نماز پڑھائیں) جب تین راتیں باقی رہ گئیں (یعنی ستائیسویں شب آئی) تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے گھر والوں، اپنی عورتوں اور سب لوگوں کو جمع کیا اور ہمارے ساتھ قیام کیا (یعنی تمام رات نماز پڑھتے رہے) یہاں تک کہ ہمیں یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں فلاح فوت نہ ہوجائے راوی فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا فلاح کیا ہے؟ حضرت ابوذر نے فرمایا کہ (فلاح سے مراد) سحر کا کھانا (ہے) پھر رسول اللہ ﷺ نے ہمارے ساتھ مہینہ کے باقی دنوں میں (یعنی اٹھائیسویں اور انتیسویں شب میں) قیام نہیں کیا سنن ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی) ابن ماجہ نے بھی اس طرح کی روایت نقل کی ہے نیز ترمذی نے اپنی روایت میں ثم لم یقم بنا بقیۃ الشھر ( یعنی آپ ﷺ نے ہمارے ساتھ مہینے کے باقی دنوں میں قیام نہیں کیا، کے الفاظ ذکر نہیں کئے۔

تشریح
اس حدیث میں معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے پہلے دو عشروں میں تراویح کی نماز صحابہ کو نہیں پڑھائی اس کا سبب وہی ہے جو پہلی حدیث میں گذر چکا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا مجھے اندیشہ ہے کہ یہ نماز فرض نہ ہوجائے حدیث کے الفاظ حتی بقی سبع الخ) یعنی یہاں تک کہ جب سات راتیں باقی رہ گئیں) کے بارے میں علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہ حساب باعتبار یقین کی ہے یعنی انتیس دن کا مہینہ یقینی ہو اسی پر حساب لگایا ہے جیسا کہ ترجمہ کے دوران قوسین میں اس کی وضاحت کر کے اس طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔ سحر کھانے کو فلاح اس لئے کہا ہے کہ اس کے ذریعے روزہ رکھنے کی قوت و طاقت حاصل ہوتی ہے جو درحقیقت فلاح کا سبب ہے۔ آخری راتوں میں قیام کا تفاوت فضیلت کے اعتبار سے تھا یعنی جن راتوں کی فضیلت کم تھی ان راتوں میں قیام کم کیا اور جن راتوں کی فضیلت زیادہ تھی ان میں فضیلت کی اسی زیادتی کے مطابق قیام بھی زیادہ کیا یہاں تک کہ ستائیسویں شب میں آپ ﷺ نے تمام رات قیام کیا۔ کیونکہ اکثر علماء کے قول کے مطابق لیلۃ القدر ستائیسویں ہی شب ہے یہی وجہ کہ آپ ﷺ نے اس رات کو اپنے گھر والوں، عورتوں کو جمع کیا اور سب کے ساتھ پوری رات عبادت الٰہی میں مشغول رہے۔
Top