مشکوٰۃ المصابیح - پینے کی چیزوں کا بیان - حدیث نمبر 4170
وعن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل على رجل من الأنصار ومعه صاحب له فسلم فرد الرجل وهو يحول الماء في حائط فقال النبي صلى الله عليه وسلم : إن كان عندك ماء بات في شنة وإلا كرعنا ؟ فقال : عندي ماء بات في شن فانطلق إلى العريش فسكب في قدح ماء ثم حلب عليه من داجن فشرب النبي صلى الله عليه وسلم ثم أعاد فشرب الرجل الذي جاء معه . رواه البخاري
جانوروں کی طرح منہ ڈال کر پانی پینا مکروہ ہے
اور حضرت جابر ؓ راوی ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم ﷺ ایک انصاری (یعنی ابوالہیثم جن کا ذکر پہلے بھی گزرا ہے) کے باغ میں تشریف لے گئے آپ ﷺ کے ہمراہ صحابی (یعنی حضرت ابوبکر ؓ بھی تھے، آنحضرت ﷺ نے (باغ میں پہنچ کر) سلام علیک کی، ان انصاری نے جو اس وقت باغ میں پانی دے رہے تھے آپ کے سلام کا جواب دیا، نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا اگر تمہارے پاس پرانی مشک میں باسی پانی ہو (تو لاؤ تاکہ ہم پئیں) اور اگر تمہارے پاس ایسا پانی نہ ہو تو پھر ہم ندی یا نہر سے منہ لگا کر پانی پی لیں گے۔ (انہوں نے عرض کیا کہ (جی ہاں) میرے پاس پرانی مشک میں باسی پانی موجود ہیں۔ چناچہ وہ جھونپڑی میں گئے جو (انہوں نے اس باغ میں ڈال رکھی تھی) اور ایک پیالہ میں پانی لے کر پھر اس پر (یعنی اس پیالہ میں) گھر کی پلی ہوئی بکری کا دودھ دوہا (اور اس پیالہ کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کیا) جس کو نبی کریم ﷺ نے نوش فرمایا اس کے بعد وہ انصاری پہلے پیالہ کی طرح ایک اور پیالہ لے کر آئے، جس کو ان صاحب نے پیا جو آنحضرت ﷺ کے ہمراہ آئے تھے۔ (بخاری)

تشریح
کر عنا کے معنی ہیں ہم کرع میں سے پانی پی لیں گے اور کرع اس جگہ کو کہتے ہیں، جہاں بارش کا پانی جمع ہوجاتا ہے، اسی طرح چھوٹی سی نہر اور تالاب کو بھی کرع کہتے ہیں اس اعتبار سے کر عنا کا مفہوم یہ ہوا کہ ہم بغیر کسی برتن کے اور بغیر ہاتھ لگائے نہر یا تالاب وغیرہ سے منہ لگا کر پانی پی لیں گے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ کرع اس کو کہتے ہیں کہ بغیر برتن اور ہاتھ کے منہ ڈال کر پانی پیا جائے جس طرح چوپائے تالاب وغیرہ میں اپنے پاؤں ڈال کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور پھر منہ لگا کر پانی پیتے ہیں۔ سیوطی کہتے ہیں کہ (اس حدیث سے مفہموم ہوتا ہے کہ کرع یعنی منہ ڈال کر پانی پینا جائز ہے جب کہ) ابن ماجہ کی ایک روایت میں کرع کی ممانعت منقول ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ ابن ماجہ کی روایت کا تعلق نہی تنزیہی سے ہے اور یہاں جو بیان کیا گیا ہے وہ جواز کو ظاہر کرنے کے لئے تھا (مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں تو اس طرح جانوروں کے طریقہ پر پانی پینا مکروہ ہے لیکن مخصوص حالات میں اس طرح پانی پینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے )۔
Top