مشکوٰۃ المصابیح - پینے کی چیزوں کا بیان - حدیث نمبر 4169
وعن علي رضي الله عنه : أنه صلى الظهر ثم قعد في حوائج الناس في رحبة الكوفة حتى حضرت صلاة العصر ثم أتي بماء فشرب وغسل وجهه ويديه وذكر رأسه ورجليه ثم قام فشرب فصله وهو قائم ثم قال : إن أناسا يكرهون الشرب قائما وإن النبي صلى الله عليه وسلم صنع مثل ما صنعت . رواه البخاري
وضو کا پانی اور آب زم زم کھڑے ہو کر پینا مستحب ہے
اور حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ (ایک دن) انہوں نے ظہر کی نماز پڑھی اور پھر لوگوں کے معاملات و مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لئے کوفہ کی ایک بلندو کشادہ جگہ پر اپنی مجلس قائم کی (اور وہاں لوگوں کے جھگڑوں اور معاملوں کو سن سن کر فیصلہ کرتے رہے) یہاں تک کہ عصر کا وقت آگیا جب (وضو کے لئے) پانی لایا گیا تو انہوں نے (اپنی پیاس بجھانے کے لئے وضو سے پہلے اس پانی میں سے) پیا اور پھر انہوں نے (وضو کے لئے) اپنا منہ اور اپنے ہاتھ دھوئے اور راوی نے یہ ذکر کیا کہ (انہوں نے) اپنا سر کا مسح اور اپنے پاؤں (دھوئے) اس کے بعد حضرت علی ؓ کھڑے ہوئے اور وضو کا بچا ہوا پانی اس حالت میں پیا کہ وہ کھڑے ہوئے تھے اور پھر فرمایا کہ بعض لوگ کھڑے ہو کر پینے کو کراہت پر محمول کرتے ہیں یعنی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کھڑے ہو کر پانی پینا مکروہ ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایسا ہی کیا ہے جیسا کہ (ابھی) میں نے کیا۔ (بخاری)

تشریح
اور راوی نے یہ ذکر کیا الخ کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اوپر کے (یعنی پہلے) راوی نے جہاں ہاتھ اور منہ دھونے کا ذکر کیا تھا وہیں سر اور پیروں کے بارے میں بھی ذکر کیا تھا لیکن جب نیچے کے (یعنی بعد کے) راوی نے حدیث نقل کی تو وہ پہلے راوی کے قول کی تفصیل بھول گیا اور اسے یاد نہیں رہا کہ پہلے راوی نے یہ کہا تھا (کہ حضرت علی ؓ نے اپنے سر کا مسح کیا اور اپنے پیروں کو دھویا جیسا کہ بظاہر یہی واضح ہوتا ہے یا یہ کہ پہلے راوی نے یہ بیان کیا تھا کہ انہوں نے اپنے سر کا بھی مسح کیا اور پیروں کا بھی مسح کیا جیسا کہ اسی واقعہ کے بارے میں حضرت علی ؓ سے منقول ایک روایت میں یہی ذکر کیا گیا ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ پیروں کے مسح سے مراد پیروں کو ہلکے طور پر دھونا ہے اور یا یہ کہ حضرت علی ؓ نے اس وقت موزے پہن رکھے ہوں گے، اس لئے انہوں نے پیروں پر مسح کیا۔ اس حالت میں پیا کہ وہ کھڑے ہوئے تھے یہ جملہ دراصل تاکید کے طور پر ہے تاکہ یہ گمان نہ ہو کہ کھڑے ہونے کے بعد پھر بیٹھ کر انہوں نے پانی پیا ہوگا چناچہ اس بات کو مکرر واضح کیا گیا کہ انہوں نے اسی طرح کھڑے کھڑے وضو کا بچا ہوا پانی پیا۔ واضح رہے کہ احادیث میں کھڑے ہو کر پانی پینے کی ممانعت بیان کی گئی ہے جب کہ آنحضرت ﷺ اور اکابر صحابہ کا عمل اس کے برخلاف بھی ثابت ہے، چناچہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں پہلے گزر ہی چکا ہے اور مواہب لدنیہ میں حضرت جبیر بن مطعم سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو دیکھا کہ وہ کھڑے ہو کر پانی پی رہے تھے اسی طرح حضرت امام مالک نے بیان کیا ہے کہ مجھ تک یہ روایت پہنچی ہے کہ حضرت عمر ؓ عنہ، حضرت علی ؓ اور حضرت عثمان ؓ نے کھڑے ہو کر پانی پیا ہے۔ لہٰذا اس مسئلہ میں جو اس طرح کا تضاد و تعارض واقع ہوا ہے اس کو دور کرنے کے لئے علماء نے یہ کہا ہے کہ اس بارے میں جو ممانعت منقول ہے وہ اصل میں نہی تنزیہہ کے طور پر ہے، یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ممانعت کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو ایک عادت و معمول بنالیں (ویسے گاہ بگاہ یا کسی عذر کی بنا پر کھڑے ہو کر پانی پی لینے میں کوئی مضائقہ) اسی لئے آنحضرت ﷺ نے جو کھڑے ہو کر پانی پیا اس کا مقصد محض اس جواز کو بیان کرنا تھا علاوہ ازیں آب زمزم اور وضو کا بچا ہوا پانی اس ممانعت سے مستثنیٰ ہے بلکہ ان کو تو کھڑے ہی ہو کر پینا مستحب ہے، چناچہ بعض فقہی روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ زمزم اور وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پیا جائے البتہ اور پانی کھڑے ہو کر نہ پیا جائے۔
Top