مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 485
وَعَنِ الْمُغِےْرَۃِ ص بْنِ شُعْبَۃَ اَنَّہُ غَزَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم غَزْوَۃَ تَبُوْکَ قَالَ الْمُغِےْرَۃُ فَتَبَرَّزَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قِبَلَ الْغَائِطِ فَحَمَلْتُ مَعَہ، اِدَاوَۃً قَبْلَ الْفَجْرِ فَلَمَّا رَجَعَ اَخَذْتُ اُھْرِےْقُ عَلَی ےَدَےْہِ مِنَ الْاِدَاوَۃِ فَغَسَلَ ےَدَےْہِ وَوَجْھَہُ وَعَلَےْہِ جُبَّۃٌ مِّنْ صُوْفٍ ذَھَبَ ےَحْسُرُ عَنْ ذِرَاعَےْہِ فَضَاقَ کُمُّ الْجُبَّۃِ فَاَخْرَجَ ےَدَےْہِ مِنْ تَحْتِ الْجُبَّۃِ وَاَلْقَی الْجُبَّۃَ عَلٰی مَنْکِبَےْہِ وَغَسَلَ ذِرَاعَےْہِ ثُمَّ مَسَحَ بِنَاصِےَتِہٖ وَعَلَی الْعِمَامَۃِ ثُمَّ اَھْوَےْتُ لِاَنْزِعَ خُفَّےْہِ فَقَالَ دَعْھُمَا فَاِنِّی اَدْخَلْتُھُمَا طَاہِرَتَےْنِ فَمَسَحَ عَلَےْھِمَا ثُمَّ رَکِبَ وَرَکِبْتُ فَانْتَھَےْنَا اِلَی الْقَوْمِ وَقَدْ قَامُوْا اِلَی الصَّلٰوۃِ وَےُصَلِّیْ بِھِمْ عَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ وَّقَدْ رَکَعَ بِھِمْ رَکْعَۃً فَلَمَّا اَحَسَّ بِاالنَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم ذَہَبَ ےَتَاَخَّرُ فَاَوْمٰی اِلَےْہِ فَاَدْرَکَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِحْدَی الرَّکْعَتَےْنِ مَعَہُ فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَقُمْتُ مَعَہُ فَرَکَعْنَا الرَّکْعَۃَ الَّتِیْ سَبَقَتْنَا ۔(صحیح مسلم)۔
موزوں پر مسح کرنے کا بیان
اور حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوہ تبوک میں شرکت کی چناچہ وہ فرماتے ہیں کہ (اسی دوران ایک روز) فجر سے پہلے سرکار دو عالم ﷺ پاخانے کے لئے باہر تشریف لے گئے ہیں میں پانی کا لوٹا لے کر آپ ﷺ کے ہمراہ ہو لیا جب آپ ﷺ (پاخانے سے) واپس تشریف لائے (اور وضو کرنے کے لئے بیٹھے) تو میں نے آپ ﷺ کے ہاتھوں پر پانی ڈالنا شروع کیا چناچہ آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے اور منہ دھویا آپ ﷺ ایک اونی جبہ پہنے ہوئے تھے اس کی آستینیں چڑھانی چاہیں لیکن آستینیں تنگ تھیں (اس لئے چڑھ نہ سکیں) آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو جبے کے اندر سے نکال کر جبے کو کندھوں پر رکھا اور کہنیوں تک دھو کر چوتھائی سر کا اور پگڑی کا مسح کیا پھر (جب) میں نے آپ ﷺ کے موزے اتارنے کا ارادہ کیا تاکہ آپ ﷺ پاؤں دھولیں (تو) آپ ﷺ نے فرمایا کہ انہیں چھوڑ دو کیونکہ میں نے (پاؤں کی) پاکی کی حالت میں انہیں پہنا تھا (یعنی وضو کرنے کے بعد پہنا تھا) اور آپ ﷺ نے دونوں موزوں پر مسح کیا، پھر آپ ﷺ اور میں دونوں سوار ہو کر واپس لوگوں کے پاس آئے تو (فجر کی) نماز کے لئے جماعت کھڑی ہوگئی تھی اور حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نماز پڑھا رہے تھے اور ایک رکعت پڑھا بھی چکے تھے جب انہیں رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری کا احساس ہوا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے (تاکہ رسول اللہ ﷺ امامت کریں) مگر رسول اللہ ﷺ نے انہیں اشارہ کیا ( کہ اپنی جگہ کھڑے رہو اور نماز پڑھائے جاؤ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رکعت نماز ان کے ساتھ ہی پڑھی (یعنی آپ ﷺ نے دوسری رکعت حضرت عبدا لرحمن کی اقتداء میں ادا کی) جب انہوں نے سلام پھیرا تو آپ ﷺ کھڑے ہوگئے اور میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور جو پہلی رکعت رہ گئی تھی ہم نے اسے پڑھ لیا۔ (صحیح مسلم)

تشریح
راوی نے رسول اللہ ﷺ کے وضو کا ذکر کیا ہے مگر کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا ذکر نہیں کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو راوی کے پیش نظر اختصار تھا اس لئے انہوں نے ان دونوں چیزوں کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھایا یہ کہ راوی اس کا ذکر کرنے کو بھول گئے ہوں گے، یا پھر اس لئے ذکر نہیں کیا کہ یہ دونوں چیزیں بھی منہ کی حد میں آجاتی ہیں اس لئے صرف منہ دھونے کا ذکر کافی سمجھا۔ پگڑی پر مسح کرنے کے معنی یہ ہیں کہ آپ ﷺ نے چوتھائی سر پر مسح کرنے کے بعد تمام سر پر مسح کرنے کے بجائے پگڑی پر مسح کرلیا تاکہ تمام سر پر مسح کرنے کی سنت ادا ہوجائے اس کی وضاحت باب الوضو میں بھی کی جا چکی ہے (دیکھے باب سنن الوضو کی حدیث نمبر ٨) بہر حال اس حدیث سے پانچ چیزیں ثابت ہوتی ہیں (١) رسول اللہ ﷺ فجر سے پہلے قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے اس سے یہ ثابت ہوا کہ عبادت مثلاً نماز وغیرہ کا وقت شروع ہونے سے پہلے اس عبادت کے لئے تیاری کرنا مستحب ہے۔ (٢) حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے وضو کے وقت آپ ﷺ کے اعضائے وضو پر پانی ڈالا اس سے معلوم ہوا کہ اگر دوسرا آدمی وضو کرائے تو جائز ہے۔ (٣) جب آپ ﷺ قضائے حاجت اور وضو سے فارغ ہو کر تشریف لائے تو حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے جب انہوں نے بتقاضائے ادب پیچھے ہٹنا چاہا تاکہ رسول اللہ امامت فرمائیں تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں روک دیا اور خود بھی آخری رکعت انہیں کی اقتداء میں پڑھی اس سے معلوم ہوا کہ ایک افضل آدمی نماز میں اگر اپنے سے کم درجہ آدمی کی اقتداء کرے تو یہ جائز ہے نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ نماز کے لئے امام کا معصوم (بےگناہ) ہونا شرط نہیں ہے۔ اس سے اس فرقہ امامیہ کا رد ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ امام کا معصوم ہونا شرط ہے۔ (٤) حدیث کے آخری الفاظ سے یہ ثابت ہوا کہ جس آدمی کی کوئی رکعت امام کے ساتھ پڑھنے سے چھوٹ جائے تو اس کی ادائیگی کے لئے اسے اس وقت اٹھنا چاہئے جب کہ امام سلام پھیر لے چناچہ حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک تو چھوٹی ہوئی رکعت کو ادا کرنے کے لئے امام کے سلام پھیرنے سے پہلے اٹھنا جائز ہی نہیں اور علمائے حنفیہ کے نزدیک سلام پھیرنے سے پہلے اٹھنا مکر وہ تحریمی ہے۔ مگر اس صورت میں جب کہ یہ خوف ہو کہ اگر امام کے سلام کا انتظار کیا جائے گا تو نماز فاسد ہوجائے گی تو پہلے بھی اٹھنا جائز ہے مثلا فجر کی نماز میں امام ایک رکعت پہلے پڑھا چکا تھا ایک آدمی دوسری رکعت میں آکر شامل ہوا اب اسے ایک رکعت بعد میں ادا کرنی ہے مگر صورت حال یہ ہے کہ اگر وہ امام کے سلام پھیرنے کا انتظار کرتا ہے تو اسے خوف ہے کہ سورج طلوع ہوجائے گا جس کے نتیجہ میں نماز فاسد ہوجائے گی لہٰذا اس کے لئے جائز یہ ہوگا کہ وہ امام کے سلام پھیرنے سے پہلے اٹھ جائے اور نماز پوری کرلے اس مسئلہ کی وضاحت فقہ کی کتابوں میں خوب اچھی طرح کی گئی ہے اس کی تفصیل وہاں دیکھی جاسکتی ہے۔ (٥) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جماعت کے وقت اگر امام موجود نہ ہو اور اس کے آنے میں دیر ہو اور یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کب آئے گا تو یہ مستحب ہے کہ امام کا انتظار نہ کیا جائے بلکہ کوئی دوسرا آدمی نماز پڑھانی شروع کر دے اور اگر امام کے آنے کا وقت معلوم ہو تو اس صورت میں اس کا انتظار کرنا مستحب ہے اور اگر امام کا مکان قریب مسجد ہو تو اسے جماعت کا وقت ہوجانے پر مطلع کرنا مستحب ہے۔
Top