مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 450
وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ سَأَلَ رَجُلٌ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّا نَرْ کَبُ الْبَحْرَ وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِیْلَ مِنَ الْمَآءِ فَاِنْ تَوضَّاْنَا بِہٖ عَطِشْنَا اَفَنَتَوَضَّأُ بِمَآءِ الْبَحْرِ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ھُوَ الطَّھُوْرُ مَاوُہ، وَالْحِلُّ مَیْتَتُہ،۔( رواہ مالک و الجامع ترمذی و ابوداؤد و نسائی و ابن ماجۃ و الدارمی)
پانی کے احکام کا بیان
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے سرکار دو عالم ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! ہم (کھارے) دریا میں کشتی کے ذریعہ) سفر کرتے ہیں اور (میٹھا) پانی اپنے ہمراہ تھوڑا سا لے جاتے ہیں اس لئے اگر ہم اس پانی سے وضو کرلیں تو پیاسے رہ جائیں! تو کیا ہم دریا کے پانی سے وضو کرسکتے ہیں (یا تیمم کرلیا کریں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دریا کا وہ پانی پاک کرنے والا ہے اس کا مردار حلال ہے۔ (مالک، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، ابن ماجہ، دارمی)

تشریح
میتہ اس مردار جانور کو کہتے ہیں جو بغیر ذبح کئے ہوئے اپنے آپ مرجائے چناچہ اس حدیث میں میتۃ (سے مراد مچھلی ہے کیونکہ اسے ذبح نہیں کرتے اس کا شکار کرنا اور اسے پانی سے نکالنا ہی اس کو ذبح کرنے کے مترادف ہے۔ البتہ جو مچھلی پانی میں مرجائے وہ حنفیہ کے ہاں حلال نہیں ہے۔ دریائی جانوروں میں مچھلی تمام علماء کرام کے ہاں متفقہ طور پر حلال ہے، دوسرے جانوروں کے بارے میں اختلاف ہے جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔
Top