مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 408
وَعَنْ عَآئِشَۃَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَۃِ بَدَأَ فَغَسَلَ ےَدَےْہِ ثُمَّ ےَتَوَضَّأُکَمَا یَتَوَضَّأُ لِلصَّلٰوۃِ ثُمَّ ےُدْخِلُ اَصَابِعَہُ فِی الْمَاءۤ فَےُخَلِّلُ بِھَا اُصُوْلَ شَعْرِہٖ ثُمَّ ےَصُبُّ عَلٰی رَاْسِہٖ ثَلٰثَ غُرَفَاتٍ بِےَدَےْہِ ثُمَّ ےُفِےْضُ الْمَآءَ عَلٰی جِلْدِہٖ کُلِّہٖ (مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ) وَفِیْ رِوَاےَۃٍ لِّمُسْلِمٍ ےَبْدَأُ فَےَغْسِلُ ےَدَےْہِ قَبْلَ اَنْ ےُّدْخِلَھُمَا الْاِنَآءَ ثُمَّ ےُفْرِغُ بِےَمِےْنِہٖ عَلٰی شِمَالِہٖ فَےَغْسِلُ فَرْجَہ، ثُمَّ ےَتَوَضَّأُ۔
غسل کا بیان
اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ جب غسل جنابت (یعنی ناپاکی کو دور کرنے کے لئے غسل) کا ارادہ فرماتے تو (غسل) اس طرح شروع فرماتے کہ پہلے اپنے دونوں ہاتھ (پہنچوں تک) دھوتے پھر وضو کرتے جس طرح نماز کے لئے وضو کیا جاتا ہے پھر انگلیاں (تر ہونے کے لئے) پانی میں ڈالتے پھر انہیں نکال کر ان (انگلیوں کی تری) سے اپنے بالوں کی جڑوں میں خلال فرماتے پھر دونوں ہاتھوں سے تین چلو (پانی لے کر) سر پر ڈالتے اور پھرا پنے تمام بدن پر پانی بہاتے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (جب آپ ﷺ غسل) شروع کرتے تو اپنے داہنے ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے پھر اپنی شرم گاہ کو دھوتے اور اس کے بعد وضو کرتے۔

تشریح
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ آپ کے غسل کے طریقہ کو بتارہی ہیں کہ جب آپ ناپاکی دور کرنے کے لئے غسل فرماتے تو اس کا طریقہ کیا ہوتا تھا؟ چناچہ آپ فرما رہی ہیں کہ جب آپ ﷺ غسل شروع کرتے تو سب سے پہلے پہنچوں تک اپنے دونوں ہاتھوں کو دھوتے تھے۔ اس کے بعد آپ ﷺ اسی طرح وضو فرماتے جیسے کہ نماز کے لئے وضو کیا جاتا ہے، یعنی اگر آپ کسی ایسی جگہ غسل فرماتے کہ جہاں پاؤں رکھنے کی جگہ پانی جمع نہیں ہوتا مثلاً کسی تخت یا پتھر پر کھڑے ہو کر نہاتے تو وہ پورا وضو فرماتے اور اگر کسی ایسی جگہ نہاتے جہاں کوئی گڑھا وغیرہ ہوتا کہ اس کی وجہ سے پاؤں کے پاس پانی جمع رہتا تھا تو اس شکل میں آپ ﷺ وضو کے وقت پاؤں نہیں دھوتے بلکہ غسل سے فراغت کے بعد اس جگہ سے ہٹ کر پیر دھوتے تھے۔ جیسا کہ اس کے بعد آنے والی حدیث سے وضاحت ہو رہی ہے۔ چناچہ ہدایہ میں بھی لکھا ہے کہ اسی طرح کرنا چاہئے یعنی اگر غسل کے وقت پاؤں رکھنے کی جگہ پانی جمع نہ ہوتا ہو تو وضو مکمل کرنا چاہیے اور اگر پاؤں کے پاس پانی جمع ہوتا ہو تو پھر اس وقت پاؤں نہ دھوئے جائیں بلکہ غسل سے فارغ ہو کر وہاں سے ہٹ کر دوسری جگہ پر پیر دھوئے جائیں۔ اس جگہ نکتہ کے طور پر یہ بھی سن لیجئے کہ طبرانی کی روایت ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ کو کبھی احتلام نہیں ہوا اور نہ دیگر انبیاء کرام (علیہم السلام) کو احتلام ہوا تھا۔
Top