مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 395
وَعَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ رَاَئْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلماِذَا تَوَجَّاَ مَسَحَ وَجْھَہُ بِطَرَفِ ثَوْبِہٖ۔ (رواہ الجامع ترمذی)
وضو کی سنتوں کا بیان
اور حضرت معاذ بن جبل ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم ﷺ کو دیکھا جب آپ ﷺ وضو فرماتے ہیں تو اپنے کپڑے کے کونے سے اپنا منہ پونچھتے۔ (جامع ترمذی )

تشریح
جب آپ وضو سے فارغ ہوجاتے تو پانی خشک کرنے کے لئے اپنے کپڑے یعنی چادر وغیرہ کے کونے سے اپنا منہ پونچھ لیتے تھے۔ زیلعی نے شرح کنز میں لکھا ہے کہ وضو کے بعد رومال سے (پانی) خشک کرلینا جائز ہے چناچہ جیسا کہ حضرت عثمان، حضرت انس اور حسن ابی علی ؓ کے بارے میں بھی یہی منقول ہے اور اس کے بعد آنے والی حدیث بھی اس کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ صاحب منیہ نے وضو کے بعد اعضاء وضو کو پونچھنا مستحب لکھا ہے۔ حنفی مسلک کی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ وضو کے بعد پانی خشک کرنے کے لئے اعضاء وضو کو (کسی کپڑے یا رومال اور تولیہ وغیرہ سے) پوچھنا اگر ازراہ تکبر و غرور ہو تو مکروہ ہے اور غرور وتکبر کی بنا پر نہ ہو تو پھر مکروہ نہیں ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) کے مذہب میں نہ تو وضو کرنے والے کے لئے اور نہ غسل کرنے والے کے لئے کپڑے سے پانی خشک کرنا سنت ہے۔ ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب وضو فرما چکے تو ام لمومنین حضرت میمونہ ؓ ایک رومال لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تاکہ آپ ﷺ اس سے بھیگے ہوئے اعضاء پونچھ لیں مگر آپ ﷺ نے اسے واپس کردیا اور اعضاء وضو پر لگے ہوئے پانی کو ہاتھ سے کے ذریعہ ٹپکانے لگے۔ اس کا جواب علماء حنفیہ کی طرف سے یہ دیا جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے اعضاء وضو کو رومال سے پونچھنے سے اس لئے انکار نہیں کیا تھا کہ یہ چیز مناسب نہیں تھی بلکہ ہوسکتا ہے کہ کسی خاص عذر کی بنا پر آپ ﷺ نے رومال واپس فرما دیا ہو۔
Top