مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 392
وَعَنْ عَمْرِوابْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ جَآءَ اَعْرَابِیٌ اِلَی النَّبِیِّ صَلّٰی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْأَلُہ، عَنِ الْوُضُوْءِ فَاَرَاہُ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ ھَکَذَا الْوُضُوْءُ فَمَنْ زَادَ عَلَی ھَذَا فَقَدْ اَسَاءَ وَ تَعَدَّی وَظَلَمَ۔ (رواہ السنن نسائی وابن ماجۃ وروی ابوداؤد و معناہ)
وضو کی سنتوں کا بیان
اور حضرت عمرو بن شعیب ؓ نے اپنے والد سے انہوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے وضو کی کیفیت پوچھی چناچہ آپ ﷺ نے اسے اعضاء وضو کو تین مرتبہ دھو کر دکھلایا اور فرمایا کہ (کامل) وضو اس طرح ہے لہٰذا جس نے اس پر زیادہ کیا (یعنی تین مرتبہ سے زیادہ دھویا) اس نے برا کیا، تعدی کی اور ظلم کیا۔ (سنن نسائی و سنن ابن ماجہ اور ابوداؤد نے بھی اسی مطلب کی حدیث روایت کی ہے)۔

تشریح
آپ ﷺ نے سائل کے جواب میں اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھو کر دکھایا اور اسے بتادیا کہ اگر تم کامل وضو چاہتے ہو اور اس پر ثواب کے متمنی ہو تو پھر وضو اسی طرح کرو۔ اس پر زیادتی کرنا یعنی اعضاء وضو کو تین مرتبہ سے زیادہ دھونا وضو کرنے والے کے حق میں کوئی مفید بات نہیں ہوگی بلکہ نقصان دہ ہوگئی چناچہ آپ ﷺ نے ایسے آدمی کے بارے میں تین الفاظ، استعمال فرمائے ہیں۔ (١) برا کیا۔ اس لئے کہ اس نے سنت کو ترک کیا۔ (٢) تعدی کی۔ یعنی زیادتی کر کے حدود سنت سے تجاوز کیا۔ (٣) ظلم کیا۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کے طریقہ اور سنت کے خلاف عمل کر کے اپنے نفس پر ظلم کیا۔
Top