مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 375
وَ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍوص قَالَ رَجَعْنَامَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ مَّکَّۃَ اِلَی الْمَدِےْنَۃِ حَتّٰی اِذَا کُنَّا بِمَآءٍ بِالطَّرِےْقِ تَعَجَّلَ قَوْمٌ عِنْدَالْعَصْرِ فَتَوَضَّؤُا وَھُمْ عُجَّالٌ فَانْتَھَےْنَا اِلَےْھِمْ وَاَعْقَابُھُمْ تَلُوْحُ لَمْ ےَمَسَّھَا الْمَآءُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَےْلٌ لِّلاَعْقَابِ مِنَ النَّارِ اَسْبِغُوا الْوُضُوْءَ ۔(صحیح مسلم)
وضو کی سنتوں کا بیان
اور حضرت عبداللہ بن عمر فاروق ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ کے ہمراہ مکہ سے مدینہ کو واپس لوٹے یہاں تک کہ جس وقت ہم پانی پر پہنچے جو راستہ میں تھا تو کچھ لوگوں نے نماز عصر کے لئے وضو کرنے میں جلدی کی اور وہ لوگ بہت جلدی کرنے والے تھے، چناچہ جب ہم ان لوگوں کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ان کی ایڑیاں چمک رہی تھیں (یعنی خشک رہ گئی تھیں کیونکہ) ان تک پانی نہیں پہنچا تھا (ان خشک ایڑیوں کو دیکھ کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ویل (خرابی) ہے ایڑیوں کے لئے آگ سے! وضو کو پورا کرو۔ (صحیح مسلم)

تشریح
آنحضرت ﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے لئے واپس لوٹ رہے تھے درمیان سفر عصر کی نماز کا وقت ہوگیا، راستہ میں ایک جگہ پانی کے قریب یہ قافلہ رک گیا، کچھ لوگ یہ سوچ کر کہ نماز عصر کا وقت ہو رہا ہے، وضو کرنے کے لئے پانی کی طرف لپکے چناچہ وہ لوگ تیز چل کر اس جماعت سے جس میں خود رسول اللہ ﷺ اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ وغیرہ تھے آگے نکل گئے اور پانی پر پہلے پہنچ کر وقت کی تنگی کے سبب جلدی جلدی وضو کرلیا، جب رسول اللہ ﷺ ان کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ جلدی کی وجہ سے ان کی پیر پوری طرح دھلے نہیں ہیں جس کی وجہ سے ایڑیاں خشک رہ گئی، اسی بناء پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایڑیوں کے لئے ویل (خرابی ہے) آگ سے۔ بعض علماء نے ویل کے معنی شدت عذاب لکھے ہیں۔ کچھ علماء کی تحقیق ہے کہ ویل دوزخ میں پیپ اور لہو کے ایک پہاڑ کا نام ہے۔ بعض محققین لکھتے ہیں کہ ویل ایک ایسا کلمہ ہے جسے رنج رسیدہ آدمی بولتا ہے اور اصل میں اس کے معنی ہلاکت اور عذاب کے ہیں۔ بہر حال ان تمام معانی کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب اور صحیح یہ ہے کہ اس لفظ کا محل اصل ہی کو قرار دیا جائے۔ یعنی ایڑیوں کے لئے عظیم ہلاکت اور درد ناک عذاب ہے خاص طور پر ایڑیوں ہی کے لئے یہ وعید اس لئے ہے کہ وضو میں دھوئی نہیں گئی تھیں جس کی بناء پر وہ خشک رہ گئی تھیں۔ گو! بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہاں ایڑیوں سے مراد ایڑیوں والے ہیں یعنی یہ وعید ان لوگوں کے لئے جن کی ایڑیاں وضو میں خشک رہ گئی تھیں۔ آخر میں آپ ﷺ نے حکم فرمایا کہ وضو کو پورا کرو یعنی وضو کے جو فرائض و سنن اور مستحبات و آداب ہیں ان سب کو پورا کرو اور سب کی ادائیگی کا خیال رکھو چناچہ دوسری حدیث میں وارد ہے کہ (اعضاء وضو کا کوئی حصہ) اگر ایک ناخن کے برابر بھی خشک رہ جائے گا تو وہ وضو درست نہیں ہوگا۔ یہ حدیث اس بات کے لئے دلیل ہے کہ وضو میں پاؤں کا دھونا فرض ہے کیونکہ اگر پاؤں دھونا فرض نہ ہوتا تو ایڑیوں کے خشک رہ جانے کی وجہ سے اتنی بڑی وعید نہ فرمائی جاتی، چناچہ ہر دور کے تمام علماء اور فقہاء کا یہی عقیدہ اور مسلک رہا ہے کہ وضو میں پیروں کا دھونا فرض ہے مسح کافی نہیں ہے، اس مسئلہ میں کسی بھی ایسے عالم کا اختلاف جو لائق اعتبار اور قابل استناد ہو ثابت نہیں ہے، نیز صحابہ کرام جو رسول اللہ ﷺ کے وضو کی کیفیت و تفصیل بیان کرتے ہیں جیسے حضرت علی، حضرت عثمان غنی اور حضرت عبداللہ بن زید ؓ جنہیں حا کی یعنی رسول اللہ ﷺ کے وضو کو بیان کرنے والا کہا جاتا ہے یہاں اسی طرح حضرت جابر حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمر فاروق ؓ اور ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرام سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وضو میں اگر موزہ پہنے ہوئے نہیں ہوتے تو پیر مبارک دھویا ہی کرتے تھے۔ پھر ایسی بیشمار احادیث جو مرتبہ تو اتر کو پہنچی ہوئی ہیں منقول ہیں جن سے وضو میں پیروں کا دھونا ہی ثابت ہے اور اس کے ترک کرنے پر وعید بیشمار احادیث میں مذکور ہے۔ حضرت عبدا اللہ بن عمر ؓ اور ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرام سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وضو میں اگر موزہ پہنے ہوئے نہیں ہوتے تو پیر مبارک دھویا ہی کرتے تھے۔ پھر ایسی بیشمار احادیث جو مرتبہ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں منقول ہیں جن سے وضو میں پیروں کا دھونا ہی ثابت ہے اور اس کے ترک کرنے پر وعید بیشمار احادیث میں مذکور ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پاؤں پر مسح کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ (پیروں کو دھو کر) وضو کو پورا کرنے کا حکم فرمایا اور اس کے ترک پر و عید فرمائی چناچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مسح چھوڑ دیا اور وہ منسوخ ہوگیا۔ امام طحاوی (رح) علیہ، حضرت عبدالملک بن سلیمان کا قول نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء خراسانی (رح) سے جو جلیل القدر تابعی ہیں، پوچھا کہ کیا آپ کو کوئی ایک روایت بھی ایسی ملی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ رسول اللہ ﷺ کا کوئی بھی صحابی اپنے پیروں پر مسح کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! نہیں۔ بہر حال اس سلسلہ میں خلاصہ کلام یہ ہے کہ وضو میں پیر کے بارے میں جو حکم قرآن مجید میں مذکور ہے وہ محمل اور مشتبہ ہے، چناچہ رسول اللہ ﷺ کی سنت نے خواہ وہ قولی ہو یا فعلی جو حد شہرت و تواتر کو پہنچتی ہے اس کی تشریح اور وضاحت کردی ہے کہ قرآن پاک میں اس حکم سے اللہ کی مراد یہ ہے کہ وضو میں پاؤں کو دھونا چاہئے لہٰذا پاؤں کو دھونا ہی فرض ہے۔ جہاں تک شیعہ فرقہ کے مسلک و معمول کا تعلق ہے کہ وہ لوگ وضو میں پیر پر مسح کرتے ہیں، اس بارے میں اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ انتہائی گمراہی میں مبتلا ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی اتنی زیادہ تفصیل و تشریح اور اتنے کھلے ہوئے حکم کے باوجود ان کا پیروں کا نہ دھونا انتہائی غلط اور غیر شری فعل ہے۔ وا اللہ اعلم۔
Top