مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 338
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا خَرَجَ مِنَ الْخَلَاءِ قَالَ غُفْرَانَکَ۔ (رواہ جامع ترمذی و ابن ماجۃ والدارمی)
پاخانہ کے آداب کا بیان
اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ جب پاخانہ سے باہر تشریف لاتے تو فرماتے غفر انک یعنی اے اللہ! میں تیری بخشش کا خواست گار ہوں۔ (جامع ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)

تشریح
علماء نے اس وقت بخشش چاہنے کی دو وجہیں لکھی ہیں، اول تو یہ کہ چونکہ سرکار دو عالم ﷺ زبان سے ذکر اللہ کسی بھی حالت میں نہیں چھوڑتے تھے سوائے اس کے کہ کسی شدید حاجت اور مجبوری مثلاً پیشاب پاخانہ وغیرہ کے وقت ترک فرما دیتے تھے اس کی وجہ سے آپ اللہ سے بخشش کے خواستگار ہوتے تھے۔ دوسرے یہ کہ جب انسان کوئی غذا کھاتا ہے، تو وہ غذا معدہ میں پہنچ کردو حصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے ایک حصہ تو خون بن کر قوت و طاقت پیدا کرتا ہے اور دوسرا حصہ فضلہ ہو کر پاخانہ کی شکل میں نکل جاتا ہے، اگر قدرت کے اس نظام کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ بندوں پر اللہ کا بہت بڑا انعام اور اس کی بہت بڑی نعمت ہے جس کا شکر بندے سے کماحقہ، ادا نہیں ہوسکتا اس لئے رسول اللہ ﷺ بخشش چاہتے تھے کہ اے اللہ! مجھ سے تیری اس عظیم نعمت کا شکر ادا نہیں ہوا اس لئے تو مجھے اس کوتاہی پر بخش دے۔ بعض مشائخ نے لکھا ہے کہ ایسے موقع پر یہ ذکر کرنا مناسب ہے کہ اپنی احتیاج اور اس بات کا خیال کیا جائے کہ انسان کی ذات کی حیثیت ہی کیا ہے جس میں نجاست ہی نجاست بھری ہوئی ہے اور اس کے مقابلہ میں رب قدوس کی ذات پاک اور اس کے تقدس کا تصور کرے، افضل یہ ہے کہ لفظ غفرانک کے بعد یہ دعا پڑھ لی جائے الحمد اللہ الذی اذھب عنی الاذی وعافنی۔
Top