مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 304
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یُقَبِّلُ بَعْضَ اَزْوَاجِہٖ ثُمَّ یُسَلِّیْ وَلَا یَتَوَضَّأُ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَالتِّرْمِذِیُّ وَالنَّسَائِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ لَا یَصِحُّ عِنْدَاَصْحَابِنَا بِحَالِ إِسْنَادُ عُرْوَۃَ عَنْ عَآئِشَۃَ وِاِیْضًا اِسْنَادُ اِبْرَاھِیْمَ التَّیْمِیِّ عَنْھَا وَقَالَ اَبُوْدَاؤدَ ہٰذَا مُرْسَلٌ وَاِبْرَاھِیْمُ التَّیْمِیُّ لَمْ یَسْمَع عَنْ عَآئِشَۃَ۔
وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان
اور حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ اپنی بعض بیویوں کا بوسہ لیتے تھے اور بغیر وضو کے (پہلے ہی وضو سے) نماز پڑھ لیتے تھے (ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی ابن ماجہ) جامع ترمذی نے کہا ہے کہ ہمارے علماء کے نزدیک کسی حال میں عروہ کی سند حضرت عائشہ ؓ سے نیز ابراہیم تیمی کی بھی سند حضرت عائشہ ؓ سے صحیح نہیں ہے اور ابوداؤد نے کہا ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے اس لئے کہ ابراہیم تیمی نے حضرت عائشہ ؓ سے نہیں سنا ہے۔

تشریح
اس مسئلہ میں بھی علماء کا اختلاف ہے چناچہ حضرت امام شافعی (رح) اور امام مسند احمد بن حنبل کے نزدیک غیر محرم عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹا جاتا ہے، حضرت امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ غیر محرم عورت کو اگر شہوت کے ساتھ چھوئے تو وضو ٹوٹ جائے گا، ورنہ نہیں ٹوٹے گا ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک وضو نہیں ٹوٹتا، ان کی دلیل یہی حدیث ہے، نیز حضرت عائشہ ؓ کی ایک دوسری حدیث بھی جو صحیح البخاری و صحیح مسلم میں مذکور ہے حضرت امام اعظم (رح) کی دلیل ہے جس میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں رسول اللہ ﷺ جب رات میں تہجد پڑھنے کے لئے بیدار ہوتے تو میں سوتی رہتی اور میرے دونوں پاؤں رسول اللہ ﷺ کے سجدہ کی جگہ پڑھے رہتے تھے چناچہ آپ ﷺ سجدہ کے وقت میرے پیروں میں ٹھونکا دیتے تھے تو میں اپنے پیر سمیٹ لیتی تھی لہٰذا اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ عورت کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا، امام جامع ترمذی کا یہ کہنا عروہ ؓ کی سماعت حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے ثابت نہیں ہے بالکل صحیح نہیں ہے کیونکہ صحیحین میں (صحیح البخاری و صحیح مسلم) میں اکثر احادیث میں حضرت عائشہ ؓ سے حضرت عروہ ؓ کا سماع ثابت ہے معلوم ہوتا ہے کہ جامع ترمذی کے اس قول کو نقل کرنے میں مصنف مشکوٰۃ سے کچھ چوک ہوگئی ہے کیونکہ جامع ترمذی کے اس قول کا یہ مطلب نہیں لیا جاتا جو مصنف مشکوٰۃ نے اخذ کیا ہے۔ ابوداؤد (رح) کا یہ کہنا کہ یہ حدیث یعنی مرسل کی ایک قسم منقطع) ہے درا اصل حنفیہ کی اس دلیل کو کمزور کرتی ہے کہ جب یہ حدیث مرسل ہے تو حنفیہ کا اس کو اپنی دلیل میں پیش کرنا صحیح نہیں ہے ہم اس کا جواب دیتے ہیں کہ ہمارے نزدیک حدیث مرسل بھی حجت ہوتی ہے اور نہ صرف ہمارے نزدیک بلکہ جمہور علماء بھی مرسل حدیث کی حجیت کو تسلیم کرتے ہیں، لہٰذا اس حدیث کو مرسل کہہ کر اسے ناقابل استدلال قرار نہیں دیا جاسکتا۔
Top