مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 290
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَص اَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُوْمِ الْغَنَمِ قَالَ اِنْ شِئْتَ فَتَوَضَّاْ وَاِنْ شئْتَ فَلَا تَتَوَضَّاْ قَالَ اَنَتَوَضَّأُ مِنْ لُّحُوْمِ الْاِبِلِ قَالَ نَعَمْ فَتَوَضَّأْ مِنْ لُّحُوْمِ الْاِبِلِ قَالَ اُصَلِّیْ فِیْ مَرَابِضِ الْغَنَمِ قَالَ نَعَمْ قَالَ اُصَلِّیْ فِیْ مَبَارِکِ الْاِبِلِ قَالَ لَا۔(صحیح مسلم)
وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان
اور حضرت جابر بن سمرہ ؓ (اسم گرامی جابر بن سمرۃ اور کنیت ابوعبدا اللہ عامری ہے سن وفات میں اختلاف ہے بعض لوگ فرماتے ہیں کہ ٦٦ ھ میں انہوں نے وفات پائی کچھ حضرات کی تحقیق ہے کہ ان کا سن وفات ٧٤ ھ ہے)۔ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے سرکار دو عالم ﷺ سے پوچھا کہ کیا ہم بکری کا گوشت کھانے کے بعد وضو کریں آپ ﷺ نے فرمایا اگر تمہارا جی چاہے تو وضو کرو اور نہ چاہے تو نہ کرو پھر اس آدمی نے پوچھا کیا اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرو پھر اس آدمی نے سوال کیا کیا بکریوں کے رہنے کی جگہ میں نماز پڑھ لوں آپ ﷺ نے فرمایا ہاں! پھر اس آدمی نے دریافت کیا کیا اونٹوں کے بندھے کی جگہ نماز پڑھوں آپ نے فرمایا نہیں۔ (صحیح مسلم)

تشریح
حضرت امام احمد بن حنبل (رح) چونکہ ظاہر حدیث پر عمل کرتے ہیں اس لئے انہوں نے تو یہ حدیث دیکھ کر حکم لگا دیا کہ اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنا چاہئے کیونکہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح)، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمہم اللہ کے نزدیک اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا اس لئے کہ یہ حضرات اس حدیث کا محل وضو کے لغوی معنے ہاتھ منہ دھونے کو قرار دیتے ہیں یعنی یہ حضرات فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ کے ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ چونکہ اونٹ کے گوشت میں بساندہ اور چکنائی زیادہ ہوتی ہے اس لئے اس کو کھانے کے بعد ہاتھ منہ دھو لینا چاہئے چونکہ بکری کے گوشت میں بساندھی اور چکنائی کم ہوتی ہے اس لئے اس کے بارے میں فرما دیا کہ اگر طبیعت چاہے اور نظافت کا تقاضا ہو تو ہاتھ منہ دھولیا کرو اور اگر طبیعت نہ چاہے تو کوئی ضروری نہیں ہے۔ اونٹوں کے بندھنے کی جگہ نماز پڑھنے سے منع فرمانا نہی تنزیہی کے طور پر ہے اور منع اس لئے فرمایا کہ وہاں نماز پڑھنے میں سکون و اطمینان اور خاطرجمعی نہیں رہتی، اونٹوں کے بھاگ جانے یا لات مار دینے اور تکلیف پہنچانے کا خدشہ رہتا ہے بخلاف بکریوں کے چونکہ وہ بیچاری سیدھی سادی اور بےضرر ہوتی ہیں اس لئے ان کے رہنے کی جگہ نماز پڑھ لینے کی اجازت دے دی۔ اتنی بات اور سمجھ لینی چاہئے کہ نماز پڑھنے کے سلسلہ میں یہ جواز او عدم جواز اس صورت میں ہے جب کہ مرابض (بکریوں کے رہنے کی جگہ) اور مبارک (اونٹوں کے بندھنے کی جگہ) نجاست و گندگی سے خالی ہوں اگر وہاں نجاست ہوگی تو پھر مرابض میں بھی نماز پڑھنی مکروہ ہوگی۔
Top