مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 287
عَنْ اَبِیْ ھُرَیرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لاَ تُقْبَلُ صَلٰوۃُ مَنْ اَحْدَثَ حَتّٰی ےَتَوَضَّأَ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
وضو کو واجب کرنے والی چیزوں کا بیان
حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا بےوضو کی نماز قبول نہیں کی جاتی جب تک کہ وضو نہ کرے۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
اس کا تعلق اس آدمی سے ہے جو پانی رکھتا ہو اور اس کے استعمال کی قدرت بھی اس کے اندر ہو یعنی جس آدمی کے پاس پانی اور اس پانی کے استعمال کرنے میں اس کو کوئی عذر شرعی نہ ہو تو اس کو نماز کے لئے وضو کرنا ضروری ہے اگر اس نے وضو نہیں کیا تو اس کی نماز ادا نہیں ہوگی۔ اگر کوئی آدمی پانی نہ پائے یا اس کے استعمال کی قدرت نہ رکھتا ہو تو وہ بجائے وضو کے پاک و صاف مٹی سے تیمم کرے ایسا آدمی جو نہ تو پانی پائے اور نہ پاک و صاف مٹی ہی اسے ملے اور نہ وہ ان کے استعمال کی قدرت رکھتا ہو تو ایسے آدمی کو اصطلاح شریعت میں فاقد الطھورین فرماتے ہیں اس آدمی کے بارے میں یہ حکم ہے کہ وہ نماز نہ پڑھے، ہاں جب پانی وغیرہ پائے تو وضو کر کے نماز پڑھے۔ اس مسئلہ میں امام شافعی (رح) کا مسلک دوسرا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ایسے آدمی یعنی فاقدا الطہورین کو چاہئے کہ اس شکل میں بھی وقت نماز کے احترام میں بغیر وضو اور تیمم ہی کے نماز پڑھ لے جب اسے پانی یا مٹی دستیاب ہوجائے تو وضو یا تییم کر کے قضا کرلے۔ ہمارے علماء رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی قصدا بغیر طہارت کے نماز پڑھ لے اور پھر یہ کہ اس سے اس کا مقصد احترام وقت بھی نہ ہو تو یہ آدمی کافر ہوجاتا ہے، یا اگر لوگوں کی شرم کی وجہ سے محض دکھلانے کے لئے بھی بغیر طہارت کے نماز پڑھے تو بھی کافر ہوجاتا ہے کیونکہ ان دونوں شکلوں میں اس نے شرع کی تحقیر کی ہے اس لئے ایسا آدمی جو اپنے قول سے یا فعل سے شریعت کی تحقیر کا سبب بنتا ہے وہ اس قابل نہیں ہے کہ دائرہ اسلام اور ایمان میں رہ سکے۔
Top