مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 285
وَعَنْ اَبِی الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اَنَا اَوَّلُ مَنْ یُؤْذَنُ لَہ، بِالسُّجُوْدِ یَوْمَ الْقِیَامَِۃِ وَاَنَا اَوَّلُ مَنْ یُؤْذَنُ لَہ، اَنْ یَرْفَعَ رَأْسَہ، فَاَ نْظُرُ اِلَی مَابَیْنَ یَدَیَّ فَاعَرِفُ اُمَّتِی مِنْ بَیْنِ الْاُ مَمِ وَمَنِ خَلْفِیْ مِثْلَ ذٰلِکَ وَعَنْ یٰمِیْنِی مِثْلَ ذٰلِکَ وَعَنْ شِمَالِی مِثْلَ ذٰلِکَ فَقَالَ رَجُلٌ یَا رَسُوْلَ اﷲِ کَیْفَ تَعْرِفُ اُمَّتَکَ مِنْ بَیْنِ الْاُمَمِ فِیْمَا بَیْنَ نُوْحِ اِلٰی اُمَّتِکَ قَالَ ھُمْ غُرً مُحَجَّلُوْنَ مِنْ اَثَرِ الْوُضُوءِ لَیْسَ اَحَدٌ کَذٰلِکَ غَیْرٌ ھُمْ وَاَعْرِفُھُمْ اَنَّھُمْ یَؤْتُوْنَ کُتُبَھُمْ بِاِیْمَانِھِمْ وَاَعْرِفُھُمْ تَسْعَی بَیْنَ اَیْدِیِھِمْ ذُرِّیَتُھُمْ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل)
پاکیزگی کا بیان
اور حضرت ابودرداء ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ان لوگوں میں سب سے پہلا آدمی میں ہوں گا جن کو سجدہ کی اجازت دی جائے گی اور (پھر) ان لوگوں میں سب سے پہلا آدمی میں ہوں گا جن کو سجدہ سے سر اٹھانے کی اجازت دی جائے گی چناچہ میں اس چیز کی طرف دیکھوں گا جو میرے آگے ہوگی (یعنی مخلوق کا مجمع) اور میں امتوں کے درمیان اپنی امت کو پہچان لوں گا، پھر میں اپنے پیچھے کی طرف اسی طرح اور اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف (بھی) اس طرح دیکھوں گا (یعنی چاروں طرف اژدہام خلق دیکھوں گا اور میں اپنی امت کو پہچان لوں گا) ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! اپنی امت سے لے کر حضرت نوح (علیہ السلام) کی امت تک کی تمام امتوں میں آپ ﷺ اپنی امت کو کیونکر پہچان لیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا میری امت کے لوگ وضو کے اثر سے سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں کے ہوں گے اس امت کے علاوہ کوئی دوسری امت اس طرح (امتیازی وصف کے ساتھ) نہیں ہوگی اور میں اپنی امت کو اس طرح بھی پہچان لوں گا کہ (میری امت کے لوگوں کو ان کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے، نیز اس وجہ سے شناخت کرلوں گا کہ ان کی (خورد سال) اولاد ان کے آگے دوڑتی ہوگی۔ (مسند احمد بن حنبل)

تشریح
محشر میں جب سرکار دو عالم ﷺ بارگاہ صمدیت میں حاضر ہوں گے تو شفاعت کے لئے سجدہ میں جائیں گے اور بمقدار ایک ہفتہ سجدہ میں رہیں گے پھر بعد میں بارگاہ الوہیت سے حکم ہوگا کہ اے محمد ﷺ! اپنا سر مبارک اٹھائیے اور اے میرے محبوب مانگئے کیا مانگتے ہیں؟ ہم آپ ﷺ درخواست کو شرف قبولیت بخشیں گے اس کے بعد شافع محشر، آقائے نامدار، سرور کائنات، فخر موجوادات جناب رسول اللہ ﷺ (فداہ روحی) اللہ کی مخلوق کی شفاعت کے لئے اپنی لسان مبارک سے بارگاہ الٰہی میں درخواست پیش فرمائیں گے، حدیث کے ابتدائی حصہ میں اسی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ اس حدیث میں میدان حشر میں امت محمدیہ کی کثرت و زیادتی اور ان کے مراتب میں تفاوت کی طرف اشارہ فرما دیا گیا ہے چناچہ فانظر الی ما بین یدی (یعنی میں اس چیز کی طرف دیکھوں گا جو میرے آگے ہوگی ایسے ہی عن شمالی مثل ذلک ( یعنی اور بائیں طرف اس طرح دیکھوں گا) تک یہی مراد ہے کہ میرے چاروں طرف میری ہی امت پھیلی ہوگی اور پھر ان میں مختلف مراتب و درجات کے لوگ ہیں گے۔ صحابی ؓ کے سوال کا مطلب یہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ سے آج تک ایک بڑی لمبی مدت ہے اور ایک بڑا طویل زمانہ ہے اس دوران میں ایک دو نہیں بہت زیادہ امتیں گزری ہیں، پھر تعداد شمار کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بےانتہاء اللہ کی مخلوق اس زمانہ میں پیدا ہوئی اور مری ہے تو اتنے اژدہام اور اتنی امتیں ہیں آپ ﷺ اپنی امت کو کس طرح پہچان لیں گے، اس کے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے اس امتیازی صفت کا ذکر فرمایا جس سے امت محمد یہ کے افراد متصف ہوں گے اور تمام امتوں میں ممتاز ہوں گے۔ اس سلسلہ میں حضرت نوح (علیہ السلام) کا نام بطور خاص لینے کی وجہ یہی ہے کہ اوّل تو اس زمانہ کا طول مراد ہے دوسرے چونکہ یہ تمام نبیوں میں بہت زیادہ مشہور ہیں اس لئے ان کا نام لیا۔
Top