مشکوٰۃ المصابیح - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 278
عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اسْتَقِیْمُوْا وَلَنْ تُحْصُوْا وَاعْلَمُوْا اَنَّ خَیْرَ اَعْمَا لِکُمُ الصَّلٰوۃُ وَلَا یُحَافِظُ عَلَی الْوُضُوْءِ اِلَّا مُؤْمِنٌ۔ (رواہ موطا امام مالک و مسند احمد بن حنبل و ابن ماجۃ والدارمی)
پاکیزگی کا بیان
حضرت ثوبان ؓ (اسم گرامی ثوبان ابن بجد ہے کنیت ابوعبداللہ ہے بعض حضرات نے ابوعبدالرحمن بھی لکھی ہے آپ نے حمص میں ٥٤ ھ میں وفات پائی)۔ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا سیدھے رہو اور سیدھے رہنے کی ہرگز طاقت نہ رکھ سکو گے اور جان لو کہ تمہارے اعمال میں بہترین چیز نماز ہے اور وضو کی حفاظت مومن ہی کرتا ہے۔ (مالک، مسند احمد بن حنبل ابن ماجہ، دارمی)

تشریح
سیدھے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ اعمال پر مستقیم رہو اور ہمیشہ سیدھی راہ پر چلتے رہو، ادھر ادھر برے راستوں کی طرف میلان نہ کرو اور چونکہ یہ امر مشکل تھا اس لئے آگے فرمایا کہ لن تحصوا یعنی پورے کمال اور رسوخ کے ساتھ تم استقامت اختیار نہیں کرسکتے اور جب یہ فرما دیا گیا کہ استقامت کی طاقت نہیں رکھ سکتے اور اعمال و افعال میں استقامت کے جو حقوق ہیں وہ پوری طرح ادا نہیں ہوسکتے تو آگے ایک نہایت آسان اور سہل راہ کی طرف راہنمائی کردی گئی یعنی عبادت کی جڑ اور خلاصہ نماز پر آگاہ کردیا کہ اگر صرف اسی ایک عمل اور ایک عبادت یعنی نماز میں استقامت اختیار کرلو گے تو تمام تقصیرات کا تدارک ہوجائے گا لہٰذا چاہئے کہ نماز پر مداومت اختیار کرو۔ اس کے جو شرائط و آداب ہوں ان کا خیال رکھو اور اس کے جو حقوق ہیں ان کو پوری طرح سے ادا کرو۔ بعد میں نماز کے مقدمہ اور شرط یعنی وضو اور طہارت کی طرف اشارہ فرما دیا ہے جس کو نصف ایمان کہا گیا ہے چناچہ فرمایا گیا کہ وضو کی محافظت تو مومن کا خاصہ ہے اس لئے کہ وہ مومن کامل کا قلب و دماغ توجہ الیٰ اللہ کی شعاؤں سے ہر وقت منور رہتا ہے وہ اپنے قلب و بدن دونوں کے ساتھ یعنی ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی ہر وقت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر رہتا ہے اور ظاہر ہے کہ بارگاہ الوہیت میں حاضری بغیر ظاہر و باطن کی صفائی و پاکیزگی اور بدون طہارت کے اداب کے منافی چیز ہے اور شان عبودیت کے خلاف بھی ہے اس لئے مومن وضو کی محافظت کرتا ہے اور وضو کے جو آداب و شرائط اور سنن و مستحبات ہیں ان سب کی رعایت کرتا ہے۔
Top