مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 98
وَعَنْ اَنَسِ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُکْثِرُ اَنْ یَّقُوْلَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ فَقُلْتُ یَانَبِیَّ اﷲِ اٰمَنَّابِکَ وَبِمَا جِئْتَ بِہٖ فَھَلْ تَخَافُ عَلَیْنَا قَالَ نَعَمْ اِنَّ الْقُلُوْبَ بَیْنَ اِصْبَعَیْنِ مِنْ اَصَابِعِ اﷲِ یُقَلِّبُھَا کَیْفَ یَشَآئُ۔ (رواہ الجامع ترمذی و ابن ماجۃ)
تقدیر پر ایمان لانے کا بیان
اور حضرت انس راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ اکثر بیشتر بطور دعا کے یہ فرمایا کرتے تھے۔ اے قلوب کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھ! میں نے کہا یا رسول اللہ! ہم آپ ﷺ کے لائے ہوئے دین و شریعت پر بھی ایمان لائے تو کیا اب بھی ہمارے بارے میں آپ ﷺ ڈرتے ہیں (کہ کہیں ہم گمراہ نہ ہوجائیں) آپ ﷺ نے فرمایا بیشک قلوب اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں ( یعنی اس کے تصرف و اختیار میں ہیں اور جس وہ طرح چاہتا ہے ان کو گردش میں لاتا رہتا ہے)۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ) فائدہ حضرت انس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ ﷺ تو بالک معصوم اور محفوظ ہیں۔ نعوذ باللہ کسی گمرائی کا شائبانہ بھی آپ ﷺ کے اندر نہیں آسکتا ظاہر ہے کہ یہ دعا آپ ﷺ ہمارے لئے ہی کرتے ہوں گے کہ کہیں ہم دنیا کے چمک دمک میں پھنس کر اپنے دین و ایمان سے گمراہ نہ ہوجائیں تو کیا ایسی شکل میں جب کہ آپ ﷺ ہمارے درمیان موجود ہیں اور ہم آپ ﷺ کی رسالت اور آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کی صداقت کا اعتقاد رکھتے ہیں، نیز ہمارے قلوب ایمان و ایقان کی حقیقی کیفیت سے سر شار ہیں ہمارے گمراہ ہونے کا کیا خدشہ ہوسکتا ہے اس پر سرکار دو عالم ﷺ نے جواب دیا کہ قلوب کے رخ اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور جس طرح چاہتا ہے ان کو پھیرتا رہتا ہے، نہ معلوم کس کے قلب کا رخ گمراہی کی طرف کب ہوجائے اس لئے دعا مانگی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ دل کو ہمیشہ سلامتی کی راہ پر لگائے رہے اور گمراہی کی طرف نہ مڑنے دے۔
Top