مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 97
وَعَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِوقَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِنَّ اﷲَ خَلَقَ خَلْقَہ، فِی ظُلْمَۃِ فَاَلْقٰی عَلَیْھِمْ مِنْ نُّوْرِہٖ فَمَنْ اَصَابَہ، مِنْ ذٰلِکَ النُّوْرِ اِھْتَدَی وَمَنْ اَخْطَأَہ، ضَلَّ فَلِذٰلِکَ اَقُوْلُ جَفَّ الْقَلَمُ عَلٰی عِلْمِ اﷲِ۔(رواہ مسند احمد بن حنبل والجامع ترمذی)
تقدیر پر ایمان لانے کا بیان
اور حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار عالم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق (جن وانس) کو اندھیرے میں پیدا کیا اور پھر ان پر اپنے نور کا پر تو ڈالا، لہٰذا جس کو اس نور کی روشنی میسر آگئی وہ راہ راست پر لگ گیا اور جو اس کی مقدس شعاعوں سے محروم رہا وہ گمراہی میں پڑا رہا، اسی لئے میں کہتا ہوں کہ تقدیر الہٰی پر قلم خشک ہوچکا ہے (کہ اب تقدیر میں تغیر و تبدل ممکن نہیں۔ (مسند احمد بن حنبل جامع ترمذی )

تشریح
اندھیرے سے مراد نفس امارہ کی ظلمت ہے کہ انسان کی جبلت میں خواہشات نفسانی اور غفلت کا مادہ رکھا تھا لہٰذا جس کا قلب و دماغ ایمان و احسان کی روشنی سے منور ہوگیا اور اس نے طاعت الہٰی سے اللہ کی ذات کا عرفان حاصل کرلیا تو وہ نفس امارہ کے مکر و فریب اور اس کی ظلمت سے نکل کر اللہ پرستی و نیکو کاری کے لالہ زار میں آگیا اور جو اپنے نفس کے مکر و فریب میں پھنس کر طاعت الہٰی کے نور سے محروم رہا وہ گمراہی میں پڑا رہ گیا۔
Top