مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 94
وَعَنْ اَبِیْ خَزَامَۃَ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اَرَاَیْتَ رُقًی نَسْتَرْ قِیْھَا وَدَوَآئً نَتَدَاوٰی بِہٖ وَتُقَاۃً نَتَّقِیْھَا ھَلْ تَرُدُّ مِنْ قَدْرِ اﷲِ شَیْئًا قَالَ ھِیَ مِنْ قَدْرِ اﷲِ ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل و الجامع ترمذی وابن ماجۃ)
تقدیر پر ایمان لانے کا بیان
اور ابی خزامہ ( ابی خزامہ تابعی ہیں ان کے والد کا نام عمیر ہے جو صحابی ہیں اور جن سے ابوخزامہ روایت کرتے ہیں ابی خزامہ سے زہری روایت کرتے ہیں) اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے سرکار دو عالم ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ عملیات جن کو ہم (شفاء کے لئے) پڑھواتے ہیں اور وہ دوائیں جن کو ہم (حصول صحت کے لئے) استعمال کرتے ہیں اور وہ ہر چیزیں جن سے ہم حفاظت حاصل کرتے ہیں (مثلاً ڈھال اور زرہ وغیرہ ان کے بارے میں مجھے بتائیے کہ کیا یہ سب چیزیں نوشتہ تقدیر میں کچھ اثر انداز ہوجاتی ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ یہ چیزیں بھی نوشتہ تقدیر ہی کے مطابق ہیں)۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)

تشریح
جواب کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بیماری وغیرہ امر مقدر ہیں، اسی طرح ان کا علاج اور ان سے حفاظت کے اسباب بھی نوشتہ تقدیر ہی کے مطابق ہوتے ہیں یعنی جس طرح کسی آدمی کے مقدر میں کوئی بیماری لکھ دی گئی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی نوشتہ تقدیر بن چکا ہے کہ یہ بیمار فلاں وقت میں اپنی بیماری کا علاج کرے گا اور یہ بھی طے ہوچکا ہے کہ اس علاج و معالجہ سے اسے فائدہ ہوگا یا نہیں، اگر فائدہ ہونا لکھا ہے تو فائدہ ہوجائے گا اور فائدہ ہونا نہیں لکھا ہے تو نہیں ہوگا، اس لئے اگر کسی بیمار نے اپنی بیماری کا علاج کیا اور اسے فائدہ نہیں ہوا تو اسے سمجھنا چاہیے کہ تقدیر میں شفا نہیں لکھی تھی! لہٰذا معلوم ہوا کہ بیماری میں علاج کرنا، یا اپنی حفاظت کے لئے خارجی اسباب کا سہارا لینا نوشتہ تقدیر کے خلاف نہیں ہے۔ تعویذ گنڈے اور جھاڑ پھونک کا مسئلہ یہ ہے کہ تعویذ گناہ ہے اگر قرآن کی آیتوں اور احادیث کی دعاؤں کے مطابق ہوں یا جھاڑنا، پھونکنا اور دم کرنا اگر اسماء وصفات الہٰی اور قرآن و حدیث کے مطابق ہو۔ نیز ان کو موثر حقیقی سمجھنے کا عقیدہ بھی نہ ہو یعنی یہ یقین نہ رکھتا ہو کہ ان چیزوں سے یقینا فائدہ ہوگا خواہ مرضی الہٰی ہو یا نہ ہو بلکہ یہ عقیدہ ہو کہ شفا و صحت کا عطا کرنے والا تو اللہ ہے یہ صرف اسباب و تبرک کے درجہ میں ہیں تو ایسی شکل میں یہ چیزیں جائز ہوں گی، اگر اس کے برخلاف ہو کہ جھاڑنا پھونکنا اور تعویذ گنڈے غیر شرعی ہوں یعنی اس میں غیر اللہ کی مدد لی جاتی ہو تو یہ حرام ہوگا۔
Top