مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 80
وَعَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ الْعَبْدَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ اَھْلِ النَّارِ وَاِنَّہُ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ وَ یَعْمَلُ عَمَلَ اَھْلِ الْجَنَّہِ وَاِنَّہُ مِنْ اَھْلِ النَّار وَاِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْمِ o (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تقدیر پر ایمان لانے کا بیان
اور حضرت سہل بن سعد ( سہل بن سعد بن مالک کا پہلا نام حزن تھا لیکن بعد میں رسول اللہ ﷺ نے سہل رکھا، کنیت ابوالعباس اور بعض نے ابویحیی بھی لکھی ہے مدینہ میں ٨٨ ھ میں بعمر ٩٦ سال آپ کا انتقال ہوا)۔ راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا بندہ دوزخیوں کے سے کام کرتا رہتا ہے لیکن وہ جنتی ہوتا ہے اور جنت والوں کے سے کام کرتا ہے لیکن وہ دوزخی ہوتا ہے کیونکہ (نجات و عذاب کا) دار و مدار خاتمہ کے عمل پر ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث نے پہلی حدیث کی توثیق کردی ہے کہ اعمال سابق کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ ان اعمال کا اعتبار ہوگا جس پر کا خاتمہ ہوا ہے اس لئے کسی کی نجات و عذاب کا دار و مدار اس کے خاتمہ پر ہوگا، خاتمہ بالخیر ہوگا تو اللہ کی نعمتوں اور اس کی جنت کی سعادت سے نوازا جائے گا اور اگر خدانخواستہ خاتمہ خیر پر نہیں ہوا تو پھر عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ چنانچہ اس حدیث نے صراحۃً یہ بات واضح کردی کہ بندہ کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اطاعت الہٰی میں مصروف رہے اور ہر وقت معاصی و گناہ سے بچتا رہے اس لئے کہ نامعلوم اس کا وقت آخر کب آجائے اور وہ کسی گناہ میں مبتلا ہو کہ اچانک موت کا زبردست پنجہ اس کا گلا دبوچ لے اور اسے توبہ کی بھی مہلت نہ ملے جس کے نتیجہ میں وہاں کے دائمی خسران و عذاب میں گرفتار ہوجائے۔
Top