مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 67
وَعَنْ جَابِرٍص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ اِبْلِےْسَ ےَضَعُ عَرْشَہُ عَلَی الْمَآءِ ثُمَّ ےَبْعَثُ سَرَاےَاہُ ےَفْتِنُوْنَ النَّاسَ فَاَدْنٰھُمْ مِّنْہُ مَنْزِلَۃً اَعْظَمُھُمْ فِتْنَۃً ےَّجِئُ اَحَدُھُمْ فَےَقُوْلُ فَعَلْتُ کَذَا وَکَذَا فَےَقُوْلُ مَا صَنَعْتَ شَےْئًا قَالَ ثُمَّ ےَجِئُ اَحَدُھُمْ فَےَقُوْلُ مَا تَرَکْتُہُ حَتّٰی فَرَّقْتُ بَےْنَہُ وَبَےْنَ امْرَاَتِہٖ قَالَ فَےُدْنِےْہِ مِنْہُ وَےَقُوْلُ نِعْمَ اَنْتَ قَالَ الْاَعْمَشُ اَرَاہُ قَالَ فَےَلْتَزِمُہُ۔ (صحیح مسلم)
میاں بیوی کے درمیان شیطان کا پسند یدہ کام
اور حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابلیس اپنا تخت حکومت پانی (یعنی سمندر) پر رکھتا ہے۔ پھر وہاں سے اپنی فوجوں کو روانہ کرتا ہے تاکہ لوگوں کو فتنہ اور گمراہی میں مبتلا کریں۔ اس کی فوجوں میں ابلیس کا سب سے بڑا مقرب وہ ہے جو سب سے بڑا فتنہ انداز ہو۔ ان میں سے ایک واپس آکر کہتا ہے۔ میں نے فلاں فلاں فتنے پیدا کئے ہیں۔ ابلیس اس کے جواب میں کہتا ہے تو نے کچھ نہیں کیا، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ پھر ان میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے! میں نے (ایک بندہ کو گمراہ کرنا شروع کیا اور) اس وقت تک اس آدمی کا پیچھا نہیں چھوڑا جب تک کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہ ڈالو دی۔ رسول اللہ فرماتے ہیں کہ ابلیس ( یہ سن کر) اس کو اپنے قریب بٹھا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ تو نے اچھا کام کیا (حدیث کے ایک راوی) اعمش فرماتے ہیں میرا خیال ہے جابر ؓ نے بجائے (فیدنیہ کے) فیلتذمہ (پس ابلیس اس کو گلے لگا لیتا ہے) کے الفاظ نقل کئے تھے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
جدائی ڈلوانے سے مراد لڑائی جھگڑے کے ذریعہ مرد کی زبان سے ناسمجھی میں ایسے الفاظ ادا کردینا ہے جس سے اس کی بیوی پر طلاق بائن پڑجائے۔ طلاق بائن میں عورت اپنے خاوند پر حرام ہوجاتی ہے، اس سے شیطان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مرد اپنی جہالت کے سبب اس عورت کو اپنے نکاح میں داخل سمجھتے ہوئے اس سے صحبت کرتا رہے جو دراصل حرام کاری ہوتی ہے اور اس طرح کے لوگوں کی حرام کاری کے نتیجہ میں ناجائز اولاد پیدا ہوتی رہے، جس سے روئے زمین پر ناجائز اولاد کی تعداد بڑھتی رہے اور وہ ناجائز پیدا ہونے والے لوگ دنیا میں فسق و فجور اور گناہ و معصیت زیادہ سے زیادہ پھیلاتے رہیں۔
Top