مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 56
عَنْ مُعَاذٍ قَالَ اَوْصَانِیْ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم بِعَشَرِ کَلِمَاتٍ قَالَ لَا تُشْرِکْ بِاﷲِ شَیْاً وَاِنْ قُتِلْتَ وَ حُرِقْتَ وَلَا تُعُقُّنَّ وَالِدَیْکَ وَاِنْ اَمَرَاکَ تَخْرُجَ مَنْ اَھْلِکَ وَمَالِکَ وَلَا تَتَرُکُنَّ صَلَاۃً مَکْتُوْبَۃً مُتَعَمِّدًا فَاِنَّ مَنْ تَرَکَ صَلَاۃً مَکْتُوْبَۃً مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِاَتْ مِنْہُ ذِمَّۃ ُاﷲِ وَلَا تَشْرَ بَنَّ خَمْرًا فَاِنَّہُ رَاْسُ کُلِّ فَاحِشَۃٍ وَاِیَّاکَ وَالْمُعْصِیَۃ فان بالمعصیۃ حل سخط اﷲ وایاک والفرار من الزحف وان ھلک الناس واذا اصاب الناس موت وانت فیھم فاثبت وانفق علی عیالک من طولک ولا ترفع عنھم عصاک ادباو اخفھم فی اﷲ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل)
حضرت معاذ کو دس باتوں کی وصیت
اور حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے دس باتوں کی وصیت فرمائی، چناچہ فرمایا (١) اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اگرچہ تمہیں جان سے مار ڈالا جائے اور جلا دیا جائے (٢) اپنے والدین کی نافرمانی نہ کرو اگرچہ وہ تمہیں اپنے اہل اور مال چھوڑ دینے کا حکم دیں (٣) جان بوجھ کر کوئی فرض نماز نہ چھوڑو کیونکہ جو آدمی عمداً نماز چھوڑ دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں (٤) شراب مت پیو کیونکہ شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے (٥) اللہ کی نافرمانی اور گناہ سے بچو کیونکہ نافرمانی کرنے سے اللہ کا غصہ اتر آتا ہے۔ (٦) جہاد میں دشمنوں کو ہرگز پیٹھ نہ دکھلاؤ اگرچہ تمہارے ساتھ کے تمام لوگ ہلاک ہوجائیں۔ (٧) جب لوگوں میں موت (وباء کی صورت میں) پھیل جائے اور تم ان میں موجود ہو تو ثابت قدم رہو یعنی ان کے درمیان سے بھاگو مت (٨) اپنے اہل و عیال پر اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرتے رہو۔ (٩) تادیباً اپنا ڈنڈا ان سے نہ ہٹاؤ (١٠) اور اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں انہیں ڈراتے رہو یعنی اہل و عیال میں سے کسی کو سزاء یا تا دیبا کچھ مارنا پیٹنا ضروری ہو تو اس سے پہلو تہی نہ کرو اور ان کو اچھی اچھی باتوں کی نصیحت و تلقین کرتے رہا کرو اور دین کے احکام و مسائل کی تعلیم دیا کرو اور ان کو بری باتوں سے بچانے کی کوشش کرو۔ (مسند احمد بن حنبل)

تشریح
شرک اپنی برائی کے اعتبار سے کس قدر خطرناک ہے اور اخروی حیثیت سے کتنی ہلاکت خیزی رکھتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت معاذ کو وصیت فرمائی کہ اگر تمہیں جان سے مار ڈالے جانے کا بھی خطرہ ہو یا تمہیں آگ میں ڈالا جا رہا ہو تو بھی تم توحید کے معاملہ میں اپنے عقیدہ سے ایک انچ نیچے مت اترنا بلکہ موت کی پروا کئے بغیر اپنے اعتقاد پر پختگی کے ساتھ قائم رہنا، تاہم جہاں تک نفس مسئلہ کا تعلق ہے تو کہا جاتا ہے کہ حضرت معاذ ؓ چونکہ اپنی فطرت کے اعتبار سے شریعت کی پیروی میں انتہائی سخت تھے اور کسی بھی مسئلہ کے اسی پہلو کو اختیار کرتے تھے جو اولیٰ ہوتا تھا۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ان کے مزاج اور ذوق کے مطابق اس قدر اہمیت کے ساتھ ان کو حکم دیا، ورنہ ایسے موقع پر جب کہ اپنے ایمان واسلام کا اظہار اپنی موت کو دعوت دینے والا اور کفر و شرک کا کلمہ زبان سے ادا کئے بغیر جان نہ بچتی ہو تو اس کی اجازت ہے کہ کفر و شرک کا کوئی کلمہ زبان سے ادا کرے بشرطیکہ دل میں ایمان پوری طرح موجود رہے۔ والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کی بھی اہمیت و تاکید ہی کو ظاہر کرنے کے لئے بطور مبالغہ فرمایا گیا کہ اگر ماں باپ تمہیں تمہارے اہل و عیال سے الگ ہوجانے یا تمہیں تمہارے مال و اسباب اور املاک و جائیداد سے دستبردار ہوجانے کا بھی حکم دیں تو اس حکم کی اطاعت کرو، اس بارے میں بھی اصل مسئلہ یہ ہے کہ ماں باپ کا یہ حکم ماننا واجب نہیں ہے تاکہ حرج و نقصان میں مبتلا ہونا لازم نہ آئے۔ فرض نماز کی اہمیت جتلانے کے لئے فرمایا گیا کہ اگر تم جان بوجھ کر فرض نماز چھوڑ دو گے تو پھر اپنے آپ کو دنیا اور آخرت میں اللہ کی ذمہ داری سے باہر سمجھو، دنیا میں تم اس اعتبار سے کہ اسلامی نظام اور اسلامی حکومت کے قانون کے تحت جس تعزیر کے مستوجب قرار پاؤ گے اس میں اللہ کی طرف سے کوئی امن و عافیت تمہیں نہیں ملے گی اور آخرت میں اس اعتبار سے کہ وہاں ترک نماز کے سبب خود اللہ تمہیں عذاب میں گرفتار کرے گا۔ دشمن کو پیٹھ دکھانے کے بارے میں جیسا کہ پہلے بھی گزرا۔ یہ مسئلہ ہے کہ اگر دشمن دو تہائی تک بھی زائد ہوں یعنی ایک مسلمان کے مقابلہ پر دو دشمن دین ہوں تو اس صورت میں مقابلہ سے ہٹ جانا اور راہ فرار اختیار کرنا کسی مسلمان کو ہرگز جائز نہیں ہے ہاں اگر ایک کے مقابلہ میں دو سے زائد ہوں تو پھر تباہی کا خطرہ دیکھ کر مقابلہ سے ہٹ جانا اور جان بچانے کے لئے راہ فرار اختیار کرلینا جائز ہوگا۔ پس رسول اللہ ﷺ نے معاذ ؓ کو یہ حکم مبالغہ کے طور پر دیا کہ تم کسی بھی صورت میں اپنے دشمن کو پیٹھ مت دکھانا خواہ تمہارے تمام ساتھی شہید ہوجائیں اور دشمن کے مقابلہ پر تم تنہا ہی کیوں نہ رہ جاؤ اس حدیث میں ایک اعتقادی کمزوری کی بھی نشان دہی کی گئی ہے اور اس کے خلاف حضرت معاذ ؓ کو متنبہ کیا گیا ہے۔ یعنی اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی آبادی میں کوئی وبا پھیل جاتی ہے اور موتیں کثرت سے واقع ہونے لگتی ہیں تو عوام دہشت زدہ ہو کر اپنے گھر بار چھوڑ دیتے ہیں اور اس آبادی سے نکل بھاگتے ہیں۔ اس بارے میں بھی اصل مسئلہ یوں ہے کہ جو لوگ اس آبادی میں پہلے سے مقیم نہ ہوں بلکہ دوسری جگہوں پر ہوں تو ان کے لئے جائز ہے کہ وہ اس آبادی سے دور رہیں اور وہاں نہ آئیں لیکن جو لوگ پہلے ہی سے آبادی میں مقیم ہوں ان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ موت کے خوف سے اس آبادی کو چھوڑ دیں اور وہاں سے نکل بھاگیں، کیونکہ وباء زدہ آبادی سے نکل بھاگنا ایسا ہی گناہ ہے جیسا دشمن کے مقابلہ سے بھاگ کھڑا ہونے کا بلکہ جو آدمی اس اعتقاد سے بھاگے گا کہ اگر یہاں رہا تو مرجاؤں گا اور یہاں سے نکل بھاگنے پر موت سے بچ جاؤں گا تو وہ کافر ہوجائے گا۔
Top