مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 51
وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍورَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَرْبَعٌ مَّنْ کُنَّ فِےْہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ کَانَتْ فِےْہِ خَصْلَۃٌ مِّنْھُنَّ کَانَتْ فِےْہِ خَصْلَۃٌ مِّنَ النِّفَاقِ حَتّٰی ےَدَعَھَا اِذَائْتُمِنَ خَانَ وَاِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا عَاھَدَ غَدَرَ وَاِذَا خَاصَمَ فَجَرَ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )
منافق بنانے والی چار باتیں
اور حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس آدمی میں چار باتیں ہوں گی وہ پورا منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک بات بھی پائی جائے گی (تو سمجھ لو) اس میں نفاق کی ایک خصلت پیدا ہوئی تاوقتیکہ اس کو چھوڑ نہ دے (اور وہ چار باتیں یہ ہیں) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب قول و اقرار کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب جھگڑے تو گالیاں بکے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) فائدہ یہاں بھی نفاق سے مراد عملی نفاق ہے یعنی اگر کوئی مومن و مسلمان ان چار بری باتوں کا شکار ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ وہ پورے طور پر عملی نفاق میں مبتلا ہے اور عملاً منافق بن گیا ہے اور اگر ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت و عادت اس کے اندر پیدا ہوجائے تو جانو کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت پیدا ہوگئی ہے، لہٰذا متنبہ کیا جاتا ہے کہ جس کے نادر خواہ یہ تمام خصلتیں جمع ہوگئی ہوں یا ایک خصلت ہو وہ جان لے کہ اب اس کا نقشہ زندگی منافق ہوتا جا رہا ہے۔ اگر وہ ایمان کا دعوی کرتا ہے تو اس کے اندر ان خصلتوں کا ہونا مناسب نہیں ہے اور اگر وہ اپنی دنیا و آخرت کی بھلائی چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ان باتوں کو فورًا چھوڑ دے۔
Top