مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 49
وَعَنْہ، قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا ےَزْنِی الزَّانِیْ حِےْنَ ےَزْنِیْ وَھُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا ےَسْرِقُ السَّارِقُ حِےْنَ ےَسْرِقُ وَھُوَ مُؤْمِنٌ وَّلَا ےَشْرَبُ الْخَمْرَ حِےْنَ ےَشْرَبُھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا ےَنْتَھِبُ نَھْبَۃً ےَّرْفَعُ النَّاسُ اِلَےْہِ فِےْھَا اَبْصَارَھُمْ حِےْنَ ےَنْتَھِبُھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا ےَغُلُّ اَحَدُکُمْ حِےْنَ ےَغُلُّ وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَاِےَّاکُمْ اِےَّاکُمْ۔ )مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ( وَفِیْ رِوَاےِۃِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَّلَا ےَقْتُلُ حِےْنَ ےَقْتُلُ وَھُوَ مُؤْمِنٌ قَالَ عِکْرِمَۃُ قُلْتُ لِاِبْنِ عَبَّاسٍ ص کَےْفَ ےُنْزَعُ الْاِےْمَانُ مِنْہُ قَالَ ھٰکَذَا وَشَبَّکَ بَےْنَ اَصَابِعِہٖ ثُمَّ اَخْرَجَھَا قَالَ فَاِنْ تَابَ عَادَ اِلَےْہِ ھٰکَذَا وَشَبَّکَ بَےْنَ اَصَابِعِہٖ وَقَالَ اَبُوْ عَبْدِاللّٰہِ لَا ےَکُوْنُ ھَذَا مُؤْمِنًا تَآمًّا وَّلَا ےَکُوْنُ لَہُ نُوْرُ الْاِےْمَانِ ھَذَا لَفْظُ الْبُخَارِیِّ
وہ بد ترین گناہ جن کے ارتکاب کے وقت ایمان باقی نہیں رہتا
اور حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو اس وقت اس کا ایمان باقی نہیں رہتا، شراب پینے والا جب شراب پیتا ہے تو اس وقت اس کا ایمان نہیں رہتا اور چھینا جھپٹی کرتا ہے اور لوگ اس کو (کھلم کھلا) چھینا جھپٹی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں (لیکن خوف و دہشت کے مارے بےبس ہوجاتے ہیں اور چیخ و پکار کے علاوہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ پاتے) تو اس وقت اس کا ایمان باقی نہیں رہتا پس تم (ان گناہوں سے) بچو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) اور عبداللہ ابن عباس کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ! قتل کرنے والا جب ناحق قتل کرتا ہے تو اس وقت اس کا ایمان باقی نہیں رہتا۔ عکرمہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے (یہ حدیث سن کر) پوچھا کہ اس سے ایمان علیحدہ کس طرح کرلیا جاتا ہے، تو انہوں نے کہا اس طرح ( یہ کہہ کر) انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں داخل کیں اور پھر ان انگلیوں کو ایک دوسری سے علیحدہ کرلیا اس کے بعد انہوں نے فرمایا اگر وہ توبہ کرلیتا ہے تو ایمان اس طرح واپس آجاتا ہے اور یہ (کہہ کر) انہوں نے انگلیوں کو پھر ایک دوسری میں داخل کرلیا۔ نیز ابوعبداللہ (یعنی عبداللہ بن اسماعیل بخاری) نے کہا ہے کہ (اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ) وہ آدمی ارتکاب معصیت کے وقت مومن کامل نہیں رہتا اور اس میں سے ایمان کا نور نکل جاتا ہے (بخاری)

تشریح
جیسا کہ پہلے بھی بتایا گیا، مومن کا قلب ایک ایسے حساس اور پاکیزہ ظرف کی مانند ہے جس میں صرف ایمان کا نور ٹھہر سکتا ہے، ایمان کے منافی کوئی بھی چیز در انداز ہونے کی کوشش کرتی ہے تو نہ قلب مومن اس کا روا دار ہوتا ہے اور نہ نور ایمان اس کو برداشت کرتا ہے، چناچہ وہ بد ترین اور سنگین گناہ جس کا حدیث بالا میں ذکر ہوا، ایسی منافی ایمان باتیں ہیں جن کا تحمل نور ایمان کسی حالت میں نہیں کرسکتا، ادھر انسان ان میں سے کسی گناہ کا ارتکاب شروع کرتا ہے کہ ادھر نور ایمان اس کے قلب سے رخصت ہوجاتا ہے اور پھر جب تک کہ اس گناہ پر نادم و شرمندہ ہو کر آئندہ کے لئے خلوص دل سے توبہ نہیں کرلیتا ایمان کی وہ نورانی کیفیت جو ارتکاب گناہ سے قبل اس کو حاصل تھی، اس کے قلب میں واپس نہیں آتی، اسی صورت حال کو حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ نے اپنی انگلیوں کی مثال کے ذریعہ واضح کیا، انہوں نے پہلے اپنے ایک ہاتھ کے پنجہ کو دوسرے ہاتھ کے پنجہ میں داخل کیا اور دکھایا کہ یہ گویا ارتکاب معصیت سے قبل کی حالت ہے کہ نور ایمان مومن کے قلب میں جاگزیں ہے پھر انہوں نے دونوں پنجوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر کے بتایا کہ جس طرح یہ پنجہ دوسرے پنجہ سے الگ ہوگیا ہے، اسی طرح ارتکاب معصیت کے وقت نور ایمان مومن کے قلب سے علیحدہ ہوجاتا ہے اور پھر انہوں نے دوسرے پنجوں کو ایک دوسرے میں داخل کردیا اور کہا کہ جس طرح یہ پنجے پھر ایک دوسرے میں داخل ہوگئے ہیں اسی طرح اگر مومن ارتکاب معصیت کے بعد توبہ کرلیتا ہے تو اس کا نور ایمان پہلے کی طرح اپنی جگہ واپس آجاتا ہے۔ امام ابن ابی شیبہ نے لکھا ہے کہ ارتکاب معصیت کے وقت ایمان کے باقی نہ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ مرتکب معصیت کامل مومن نہیں رہ جاتا اس کا ایمان ناقص ہوجاتا ہے (ترجمان السنتہ) اور یہی حاصل عبداللہ بن اسماعیل بخاری کے قول کا ہے جو روایت کے آخری فقرہ سے معلوم ہوا۔
Top