مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 37
وَعَنْ عُثْمَانَ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ اِنَّ رِجَالًا مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم حِیْنَ تُوُفِّیَ حَزِنُوْا عَلَیْہٖ حَتَّی کَادَ بَعْضُھُمْ یُوَسْوِسُ قَالَ عُثْمَانْ وَکُنْتُ بَعْضَھُمْ فَبَیْنَا اَنَا جَالِسٌ مَرَّ عَلَیَّ عُمَرَوَسَلَّمَ فَلَمْ اَشْعُرْبِہٖ فَاشْتَکَی عُمَرُاِلَی اَبِی بَکْرٍ ثُمَّ اَقْبَلَا حَتَّی سَلَّمَا عَلَیَّ جَمِیْعًا فَقَالَ اَبُوْبَکْرٍ مَا حَمَلَکَ عَلَی اَنْ لَا تَرُدَّ عَلَی اَخِیْکَ عُمَرَ سَلَامَہُ قُلْتُ مَا فَعَلْتُ فَقَالَ عُمَرُ بَلٰی وَاﷲِ لَقَدْ فَعَلْتَ قَالَ قُلْتُ وَاﷲِ مَاشَعَرْتُ اَنَّکَ مَرَرْتَ وَلَا سَلَمْتَ قَالَ اَبُوْبَکْرٍ صَدَقَ عُثْمَانُ قَدْ شَغَلَکَ عَنْ ذٰلِکَ اَمْرٌ فَقُلْتُ اَجَلْ قَالَ مَا ھُوَ قُلْتُ تَوَفِّیَ اﷲَ تَعَالٰی نَبِیَّہُ صلی اللہ علیہ وسلم قَبْلَ اَن نَّسْاَ لَہُ عَنْ نَّجَاۃِ ھٰذَا الْاَ مْرِ قَالَ اَبُوْبَکْرٍ قَدْ سَاَلْتُہُ عَنْ ذٰلِکَ فَقُمْتُ اِلَیْہِ وَقُلْتُ لَہُ بِاَ بِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ اَنْتَ اَحَقُّ بِھَا قَالَ اَبُوْبَکْرٍ قُلْتُ یاَ رَسُوْلَ اﷲِ مَانَجَاۃُ ھٰذَا الْاَمْرِ فَقَاَل رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلممَنْ قَبِلَ مِنِّی الْکَلِمٰۃَ الَّتِیْ عَرَضْتُ عَلٰی عَمِّیْ فَرَدَّھَافَھِی لَہُ نَجَاۃٌ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل)
کلمہ توحید نجات کا ذریعہ
اور حضرت عثمان غنی ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو صحابہ کی ایک جماعت پر رنج و حزن کا اتنا غلبہ تھا کہ ان میں بعض لوگوں کے بارے میں تو یہ خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں شک و شبہ میں گرفتار نہ ہوجائیں (یعنی اس واہمہ کا شکار ہوجائیں کہ جب رسول اللہ ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوگئے تو دین و شریعت کا قصہ بھی تمام ہوگیا) حضرت عثمان غنی ؓ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں میں سے ایک میں بھی تھا۔ چناچہ (اس عظیم حادثہ سے سخت پریشان خیال اور غم واندوہ کا بت بنا) میں بیٹھا تھا کہ (اسی حالت میں) حضرت عمر ؓ میرے پاس سے گزرے اور مجھ کو سلام کیا، (حو اس باختہ ہونے کی وجہ سے) مجھے پتہ نہیں چلا (کہ وہ کب میرے پاس سے گزرے اور کب سلام کیا) حضرت عمر فاروق ؓ نے اس بات کی شکایت حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے کی، حضرت ابوبکر صدیق ؓ حضرت عمر فاروق ؓ کے ساتھ میرے پاس آئے اور دونوں نے مجھے سلام کیا، حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے مجھ سے پوچھا، تم نے اپنے بھائی عمر فاروق ؓ کے سلام کا جواب کیوں نہیں دیا؟ میں نے کہا! ایسا نہیں ہوا۔ (یعنی مجھے اس کا علم نہیں کہ عمر ؓ نے آکر مجھے سلام کیا ہو اور میں نے جواب نہ دیا ہو) حضرت عثمان غنی ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا! واللہ مجھے قطعًا اس کا احساس نہیں کہ آپ میرے پاس آئے تھے اور نہ ہی آپ نے سلام کیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا عثمان غنی ؓ سچ فرماتے ہیں، (لیکن معلوم ہوتا ہے کہ) کسی خاص وجہ نے تمہیں اس سے باز رکھا ( کہ نہ تو عمر فاروق ؓ کے آنے کی تمہیں خبر ہوئی اور نہ تم ان کے سلام کا جواب دے سکے) میں نے کہا! ہاں ہوسکتا ہے، انہوں نے پوچھا وہ کیا ہے؟ میں نے کہا (سرکار دو عالم ﷺ کی وفات ہی کیا کم صبر آزما تھی کہ اب یہ غم بھی کھائے لیتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے لیکن ہم آپ ﷺ سے یہ دریافت نہ کرسکے کہ اس معاملہ یعنی عبادت میں وسوسوں کا پیدا ہونا، شیطان کا بہکانا، یا دوزخ کی آگ) سے نجات کا ذریعہ کیا ہے؟ ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا! (تم غم نہ کھاؤ) میں اس بارے میں آنحضور ﷺ سے پہلے پوچھ چکا ہوں، حضرت عثمان غنی ؓ فرماتے ہیں کہ) میں ( بےاختیار) کھڑا ہوگیا اور بولا آپ پر میرے ماں باپ قربان، واقعی آپ ہی (آنحضور سے کمال رکھنے اور حصول علم کے غلبہ شوق کی وجہ سے) اس بارے میں سوال کرنے کے لئے لائق تر تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا! میں نے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ ﷺ! اس معاملہ میں نجات کی کیا صورت ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جس آدمی نے (خلوص دل کے ساتھ) ہم سے وہ کلمہ توحید قبول کرلیا جسے میں نے چچا ابوطالب کے سامنے پیش کیا تھا اور انہوں نے اس کو قبول نہیں کیا تھا تو وہ کلمہ اس آدمی کی نجات کا ضامن ہوگا۔ (مسند احمد بن حنبل)

تشریح
گویا کلمہ توحید کے یہ فضائل و برکات ہیں کہ جس آدمی نے اس کلمہ کو صدق دل سے اور پختہ اعتقاد کے ساتھ قبول کرلیا اور اس کے تقاضوں کو پورا کر کے دین کے فرائض پر عمل کیا تو وہ کلمہ آخرت میں اس کی نجات کا ضامن ہوگا اور کلمہ گو اس کی برکتوں سے وہاں کی سعادتوں سے نوازا جائے گا اور اگر اس کلمہ کا ورد رکھا جائے اور اس کو اکثر پڑھا جاتا رہے اور اس کا ذکر پابندی سے رہے تو دنیا میں بھی اس کی برکت اس طرح ظاہر ہوگی کہ اس کلمہ کی بدولت فکر و خیال اور عمل پر شیطان کو تسلط حاصل نہیں ہو پائے گا کہ نہ واہمے اور وسوسے پیدا ہوں گے، نہ نماز و عبادت کے دوران خیالات بھٹکتے پھریں گے اور نہ دل و دماغ شکوک و شبہات کی آماجگاہ بنیں گے بلکہ اس مبارک ورد و ذکر سے ذات الہٰی کی معرفت حاصل ہوگی، آخرت سے لگاؤ ہوگا اور رسول برحق ﷺ سے محبت وتعلق کی خاص کیفیت پیدا ہوگی۔
Top