مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 35
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ کُنَّا قُعُوْدًا حَوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَمَعَنَا اَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ فِیْ نَفَرٍ فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ بَےْنِ اَظْھُرِنَا فَاَبْطَاَ عَلَےْنَا وَخَشِےْنَا اَنْ ےَّقْتَطِعَ دُوْنَنَا وَفَزِعْنَا فَقُمْنَافَکُنْتُ اَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَخَرَجْتُ اَبْتَغِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتّٰی اَتَےْتُ حَآئِطًا لِلْاَنْصَارِ لِبَنِی النَّجَّارِِ فَدُرْتُ بِہٖ ھَلْ اَجِدُ لَہُ بَابًا فَلَمْ اَجِدْ فَاِذَا رَبِےْعٌ ےَدْخُلُ فِی جَوْفِ حَائِطٍ مِّنْ بِئْرٍ خَارِجَۃٍ وَّالرَّبِےْعُ الْجَدُوُلُ قَالَ فَاحْتَفَزْتُ فَدَخَلْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ اَبُوْ ہُرَےْرَۃَ ص فَقُلْتُ نِعْمَ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَا شَانُکَ قُلْتُ کُنْتَ بَےْنَ اَظْہُرِِنَا فَقُمْتَ فَاَبْطَاْتَ عَلَےْنَا فَخَشِےْنَا اَنْ تُقْتَطَعَ دُوْنَنَا فَفَزِعْنَا فَکُنْتُ اَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَاَتَےْتُ ھٰذَا الْحَآئِطَ فَاحْتَفَزْتُ کَمَا ےَحْتَفِزُالثَّعْلَبُ وَھٰؤُلَآءِ النَّاسُ وَرَآئِیْ فَقَالَ ےَا اَبَا ھُرَےْرَۃَ وَاَعْطَانِیْ نَعْلَےْہِ فَقَالَ اذْھَبْ بِنَعْلَیَّ ھَاتَےْنِ فَمَنْ لَّقِےْکَ مِنْ وَّرَآءِ ھٰذَ الْحَآئِطِ ےَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُسْتَےْقِنًا بِھَا قَلْبُہُ فَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ فَکَانَ اَوَّلُ مَنْ لَّقِےْتُ عُمَرَ فَقَالَ مَا ھَاتَانِ النَّعْلَانِ ےَا اَبَا ھُرَےْرَۃَ فَقُلْتُ ھَاتَانِ نَعْلَا رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم بَعَثَنِیْ بِھِمَا مَنْ لَّقِےْتُ ےَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ مُسْتَےْقِنًا بِھَا قَلْبُہُ بَشَّرْتُہُ بِالْجَنَّۃِ فَضَرَبَ عُمَرُ بَےْنَ ثَدْےَیَّ فَخَرَرْتُ لِاِسْتِیْ فَقَالَ اِرْجِعْ ےَا اَبَا ھُرَےْرَۃَ فَرَجَعْتُ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَاَجْھَشْتُ بِالْبُکَآءِ وَرَکِبَنِیْ عُمَرُ وَاِذَا ھُوَ عَلٰی اَثَرِیْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَالَکَ ےَا اَبَا ھُرَےْرَۃَ قُلْتُ لَقِےْتُ عُمَرَ فَاَخْبَرْتُہُ بِالَّذِیْ بَعَثْتَنِیْ بِہٖ فَضَرَبَ بَےْنَ ثَدْےَیَّ ضَرْبَۃً خَرَرْتُ لِاِسْتِیْ فَقَالَ ارْجِعْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَا عُمَرُ مَا حَمَلَکَ عَلٰی مَا فَعَلْتَ قَالَ ےَارَسُوْلَ اللّٰہِ بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ بَعَثْتَ اَبَا ھُرَےْرَۃَ بِنَعْلَےْکَ مَنْ لَّقِیَ ےَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ مُسْتَےْقِنًا بِھَا قَلْبُہُ بَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَلَا تَفْعَلْ فَاِنِّی اَخْشٰی اَنْ ےَّتَکِلَ النَّاسُ عَلَےْھَا فَخَلِّھِمْ ےَعْمَلُوْنَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَخَلِّھِمْ ۔(صحیح مسلم)
عقیدہ توحید پر قائم رہنے والوں کے لئے جنت کی خوشخبری
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) چند صحابہ رسول اللہ ﷺ کے گرد بیٹھے تھے اور ہمارے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق ؓ و حضرت عمر فاروق ؓ بھی تھے کہ رسول اللہ ﷺ اچانک ہمارے درمیان سے اٹھے اور کہیں باہر تشریف لے گئے۔ جب آپ ﷺ کو گئے ہوئے بہت دیر ہوگئی (اور واپس تشریف نہیں لائے) تو ہمیں سخت تشویش ہوئی کہ کہیں ہماری غیر موجودگی میں کسی دشمن کی جانب سے آپ ﷺ کو کوئی ایذاء نہ پہنچ جائے (اس خیال سے) ہم گھبرائے اور اٹھ کھڑے ہوئے، چونکہ سب سے پہلا آدمی میں تھا جو گھبرا اٹھا اس لئے (سب سے پہلے) میں رسول اللہ ﷺ کی تلااش میں باہر نکلا اور ڈھونڈتا ہوا قبیلہ بنی بخار کے ایک انصاری کے باغ کے قریب پہنچ گیا ( اس خیال سے کہ شاید آپ ﷺ اس باغ کے اندر ہوں) میں نے (اندر جانے کے لئے) چاروں طرف دروازہ تلاش کیا مگر (اضطراب اور گھبراہٹ میں) دروازہ نظر نہیں آیا۔ اچانک ایک نالی نظر آئی جو باہر کے کنوئیں سے باغ کے اندر جا رہی تھی لہٰذا میں سمٹ سکٹر کر اس نالی میں داخل ہوا اور اس کے ذریعہ رسول اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں پہنچ گیا۔ آپ ﷺ نے (اس اچانک اپنے سامنے مجھے دیکھ کر حیرت سے) فرمایا ابوہریرہ تم؟ میں نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ ﷺ! آپ ﷺ نے فرمایا کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ ﷺ کو ڈھونڈھتا ہوا اس باغ تک آنکلا (یہاں دروازہ نظر نہیں آیا) تو لومڑی کی طرح سکڑ کر (نالی کے راستہ سے) اندر گھس آیا، بقیہ لوگ بھی میرے پچھے آرہے ہوں گے (یہ سن کر) آپ ﷺ نے اپنی دونوں جوتیاں نکال کر مجھے دیں اور فرمایا اے ابوہریرہ! جاؤ اور ان جوتیوں کو اپنے ساتھ لے جاؤ (تاکہ لوگ جان لیں کہ تم میرے پاس سے آئے ہو) اور باغ کے باہر جو آدمی صدق دل اور پختہ اعتقاد سے یہ گواہی دیتا ہوا تمہیں ملے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو اس کو جنت کی خوشخبری دے دو (حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اس پیغام کو لے کر میں باہر نکلا تو) سب سے پہلے حضرت عمر ؓ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے پوچھا ابوہریرہ! یہ جوتیاں کیسی ہیں؟ میں نے کہا یہ جوتیاں رسول اللہ ﷺ کی ہیں آپ نے مجھے یہ جوتیاں (نشانی کے طور پر) دے کر اس لئے بھیجا ہے کہ جو آدمی صدق دل اور پختہ اعتقاد کے ساتھ یہ گواہی دیتا ہوا ملے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں تو میں اس کو جنت کی خوشخبری دے دوں (یہ سنتے ہی) عمر فاروق ؓ نے میرے سینے پر اتنے زور سے ہاتھ مارا کہ میں سرین کے بل نیچے گرپڑا اور پھر انہوں نے کہا ابوہریرہ جاؤ واپس جاؤ۔ چناچہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں واپس لوٹ آیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ ادھر عمر فاروق ؓ کا خوف مجھ پر سوار ہی تھا اب کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بھی میرے پیچھے پیچھے آپہنچے۔ سرکار دو عالم ﷺ نے (یہ حالت دیکھ کر) فرمایا۔ ابوہریرہ! کیا ہوا! میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں آپ ﷺ کا پیغام لے کر باہر نکلا تو) سب سے پہلے میری ملاقات عمر فاروق ؓ سے ہوئی۔ میں نے آپ ﷺ کا وہ پیغام ان تک پہنچایا (انہوں نے اس کو سنتے ہی) میرے سینے پر اتنے زور سے ہاتھ مارا کہ میں سیرین کے بل زمین پر آپڑا اور پھر انہوں نے کہا کہ واپس چلے جاؤ، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے (حضرت عمر فاروق ؓ سے بوچھا عمر تم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! آپ ﷺ پر میرے ماں باپ قربان، کیا واقعی آپ ﷺ نے ابوہریرہ ؓ کو اپنی جوتیاں دے کر اس لئے بھیجا تھا کہ جو آدمی صدق دل اور پختہ اعتقاد کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہتا ہوا ملے اس کو یہ جنت کی خوشخبری دے دیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں! عمر فاروق ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ایسا نہ کیجئے، مجھے ڈر ہے کہ لوگ کہیں اسی خوشخبری پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں (اور عمل کرنا ہی چھوڑ دیں) اس لئے آپ ﷺ انہیں ( زیادہ سے زیادہ) عمل میں لگا رہنے دیجئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (اگر تمہارا یہی مشورہ ہے) تو پھر لوگوں کو عمل میں لگا رہنے دو۔ (صحیح مسلم)

تشریح
رسول اللہ ﷺ نے جنت کی جو خوشخبری حضرت ابوہریرہ ؓ کے ذریعہ لوگوں تک پہنچانا چاہی تھی اس کا تعلق عقیدہ توحید اور ایمان با اللہ میں اخلاص اور پختگی کے ساتھ تھا، مطلب یہ کہ جس آدمی نے اس کیفیت کے ساتھ اللہ کو ایک اور اپنا معبود پروردگار مان لیا اور اسی عقیدہ پر آخر تک قائم رہا کہ نہ تو وہ اپنے دل و دماغ میں کسی قسم کی کوئی گرانی، تنگی اور دباؤ محسوس کرتا ہے اور نہ اس عقیدہ کے تئیں کسی شک و شبہ کا شکار ہوتا ہے بلکہ اس کے قلب و ذہن اور احساس و فکر کی دنیا و اعتماد اور اطیمنان و مسرت سے سر شار رہتی ہے، کسی دنیاوی غرض و مفاد و ریاء، و نمائش اور نفاق کی بجائے خلوص و للّٰہیت اور رضائے الہٰی کا جذبہ اور تقاضا ہی اس کے ایمان اور عقیدہ کی بنیاد ہے تو ایسا آدمی یقینا جنت کی ابدی سعادتوں کا حقدار ہوگا رہا سوال حضرت عمر فاروق ؓ کے رویہ کا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے قاصد حضرت ابوہریرہ ؓ کو اس خوشخبری کی اشاعت سے کیوں روک دیا اور یہ کہ ان کا رویہ رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تعمیل میں رکاوٹ ڈالنے اور ذات رسالت پناہ کی عظمت و حرمت کے منافی طرز عمل اختیار کرنے کے مترادف تھا یا نہیں؟ تو اس سلسلہ میں یہ دیکھنا چاہیے کہ اس خوشخبری کا تعلق دین و شریعت کے کسی حکم و مسئلہ کے نفاذ و اشاعت سے تھا یا کسی خاص جذبہ و احساس کے ظہار سے۔ ظاہر ہے وہ کسی مسئلہ کی مشروعیت کی بات نہیں تھی کسی حلال یا حرام کا حکم بیان کرنا نہیں تھا، کسی فرض یا واجب کو نافذ کرنا نہیں تھا بلکہ وہ تو محض رحمت دو عالم ﷺ کی نہایت شفقت و محبت کا ایک جذبہ تھا جو اہل ایمان کے تئیں بےاختیار امنڈ آیا تھا اور اس (خوشخبری) کی صورت میں ایک ایک صاحب ایمان تک پہنچ جانا چاہتا تھا۔ چناچہ یہ خوشخبری جب حضرت عمر فاروق ؓ تک پہنچی اور انہوں نے فوری طور پر محسوس کیا کہ گو یہ خوشخبری اپنی جگہ ایک اہم حقیقت ہے لیکن مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ اس ابتدائی مرحلہ میں اس کو عام مسلمانوں تک نہ پہنچے دیا جائے اور بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر اس مصلحت و حکمت تقاضا یہ ہے کہ اس ابتدائی مرحلہ میں اس کو عام مسلمانوں تک نہ پہنچے دیا جائے اور بارگاہ رسالت حاضر ہو کر اس مصلحت و حکمت کا اظہار کردیا جائے جس پر رحمت عالم ﷺ کی نہایت محبت و شفقت کا شدید جذبہ غالب آگیا ہے، لہٰذا انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کو واپس کردیا اور پھر فوراً رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، صورت حال کی تحقیق کے بعد جب یہ اطیمنان ہوگیا کہ ابوہریرہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مامور تھے اور آپ ﷺ ہی نے یہ خوشخبری عطا فرمائی تھی تو انہوں نے اپنے محسن اور رسول کے مشن کی کامیابی اور مقاصد کی تکمیل کے لئے ایک مخلص اور بیدار مغز خادم کی حیثیت سے اپنا مشورہ بارگاہ رسالت میں پیش کردیا۔ پھر یہ ہوا کہ جوں ہی حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے مشورے میں اس مصلحت کی طرف توجہ دلائی خود رسول اللہ ﷺ کا ذہن بھی ادھر منتقل ہوگیا اور آپ ﷺ خود بھی فرماہی چکے تھے کہ اگر اس طرح کی خوشخبری عام مسلمانوں تک پہنچ گئی تو وہ اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں گے اور عمل کرنا چھوڑ دیں گے (دیکھئے اسی باب کی حدیث ٢١) لہٰذا آپ ﷺ نے اپنے ایک صائب الرائے مشیر اور مخلص خادم کے مشورے کی قدر دانی فرمائی اور اس خوشخبری کی اشاعت کا حکم واپس لے لیا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر اس خوشخبری کی جگہ کسی شرعی حکم کی اشاعت کا معاملہ ہوتا یا کسی فرض و واجب چیز کے نفاذ کی بات ہوتی تو خود حضرت عمر فاروق ؓ کو اس میں رکاوٹ ڈالنے کی نہ جرات ہوتی۔ اور نہ وہ حضرت ابوہریرہ ؓ کو واپس کر کے اس اشاعت کو روک دیتے بلکہ ایک سچے و مخلص مومن اور فرمانبردار خادم کی حیثیت سے سب سے پہلے اس کو قبول کرتے اور اس فرمان رسالت کی اشاعت میں خود لگ جاتے اور بفرض محال حضرت عمر ؓ اگر ایسے معاملہ میں بھی وہی رویہ اختیار کرتے تو پھر بارگاہ رسالت میں نہ ان کے اس رویہ سے چشم پوشی ہوتی اور نہ ان کے کسی مشورے اور رائے کو اہمیت اور قبولیت کا درجہ ملتا۔ کیونکہ دینی احکام اور شرعی ہدایات میں نہ کسی مشورے اور رائے کی گنجائش ہوتی ہے اور نہ کسی کی رائے اور مشورہ کو کوئی اہمیت دی جاتی ہے۔ پس یہ بات کہ بارگارہ رسالت میں حضرت عمر ؓ کی رائے کو اہمیت دی گئی اور ان کا مشورہ قبول ہوا، خود اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے مذکورہ رویہ سے نہ ان کی شان صحابیت پر کوئی فرق پڑا اور نہ رسول اللہ کی حکم عدولی ہوئی لہٰذا اس حدیث سے اگر کوئی آدمی اس طرح کی بات ثابت کرتا ہے تو اس کی اپنی نادانی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس حدیث سے اگر ایک طرف اللہ کی بےپایاں رحمت اور امت کے تئیں رسول اللہ ﷺ کی انتہائی محبت و شفقت کا اظہار ہوتا ہے تو دوسری طرف حضرت عمر ؓ کی اصابت رائے، فہم و فراست، بصیرت و دانائی اور امر حق میں ان کی صاف گوئی اور اظہار خیال کی جرات پر بھی روشنی پڑتی ہے جو ان کا خصوصی وصف کمال ہے۔
Top