مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 34
وَعَنْ جَابِرٍ صقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ثِنْتَانِ مُوْجِبَتَانِ قَالَ رَجُلٌ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَاالْمُوْجِبَتَانِ قَالَ مَنْ مَّاتَ ےُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَےْئًا دَخَلَ النَّارَ وَمَنْ مَّاتَ لَا ےُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَےْئًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔(صحیح مسلم)
جنت اور دوزخ کو واجب کرنے والی باتیں
اور حضرت جابر (معروف انصاری صحابی ہیں آپ کے والد کا نام عبداللہ اور آپ کی کنیت ابوعبداللہ بیان کی گئی ہے۔ ٩٤ سال کی عمر میں ٦٢ ھ میں وفات پائی)۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو باتیں (جنت اور دوزخ کو) واجب کرنے والی ہیں، ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ (جنت و دوزخ کو) واجب کرنے والی وہ دو باتیں کونسی ہیں؟ آپ نے فرمایا پہلی بات تو یہ کہ جو آدمی اس حال میں مرا کہ اس نے کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا تھا تو وہ دوزخ میں ڈال دیا جائے گا (اور دوسری بات یہ کہ) جس آدمی کی وفات اس حال میں ہوئی کہ اس نے کسی کو اللہ کا شریک نہ کیا تھا تو وہ جنت میں جائے گا۔ (صحیح مسلم)

تشریح
ان احادیث کا مطلب یہی ہے کہ اگر کوئی آدمی ایمان لایا اور اللہ کی وحدانیت اور اس کے ساتھ ساتھ رسول کی رسالت کا عہدو اقرار کیا اور پھر اس عہدواقرار کے تمام تقاضوں کو پورا کیا یعنی شریعت و دین کی پوری پوری پیروی کی اور پھر اسی اعتقاد و اطاعت پر اس کی موت آئی تو یہ یقینا جنتی ہے۔ اس کی نجات میں بظاہر کوئی شبہ نہیں ہوگا لیکن اگر ایمان و اسلام کے بعد اس سے عمل کی کو تاہیاں سرزد ہوئیں یا شریعت پر عمل نہیں کیا مگر خاتمہ اس کا بھی ایمان پر ہوا تو اس کی بھی ابدی نجات تو یقینا ہوگی لیکن اس سے دنیا میں جو کچھ بداعمالیاں ہوئیں یا گناہ سرزد ہوئے ان پر اس کو آخرت کی سزا بھگتنی ہوگی، سزا کے بعد پھر ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابدی نجات کا دار و مدار ایمان پر ہے اگر ایمان صحیح ہے اور اسی حالت میں موت واقع ہوئی ہے تو ابدی نجات میں کوئی شک نہیں۔ اور اگر کسی نے شریعت پر عمل نہیں کیا، احکام ٰخداوندی و احکام رسول کی پیروی نہیں کی تو اس پر سزا کا ہونا بھی یقینی ہے مگر اس سزا کا تعلق بھی ایک محدود مدت سے ہوگا، سزا پوری کرنے کے بعد وہ بھی ابدی نجات کی سعادت سے نوازا جائے گا۔
Top