مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 27
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِاَخْبِرْنِی بِعَمَلِ یُّدْخِلْنِیَ الْجَنَّۃَ وَیُبَا عِدُنِی مِنَ النَّارِ قَالَ لَقَدْ سَأَلْتَ عَنْ اَمْرٍ عَظِیْمٍ وَاِنَّہ، لَیَسِیْرٌ عَلٰی مَنْ یَسَّرَہ، اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ تَعْبُدُ اﷲَ وَلَا تُشْرِکْ بِہٖ شَیْئًا وَتُقِیْمُ الصَّلَاۃَ وَتُوْتِی الزَّکَاۃَ وَتَصُوْمُ رَمَضَانَ وَتَحُجُّ الْبَیْتَ ثُمَّ قَالَ اَلَآ اَدُلُّکَ عَلَی اَبْوَابِ الْخَیْرِ الصَّوْمُ جُنَّۃٌ وَالصَدَقَۃُ تُطْفِئُ الْخَطِیْئَۃَ کَمَا یُطْفِیُ الْمَآءُ النَّارَ وَصَلَاۃُ الرَّجُلِ فِی جَوْفِ الْلَّیْلِ ثُمَّ تَلِاَ (تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِمْ) حَتَّی بَلَغَ یَعْمَلُوْنَ ثُمَّ قَالَ اَلَآ اَدُلُّکَ بِرَأْسِ الْاَمْرِوَعُمُوِدِہٖ وَذِرْوَۃِ سَنَامِہٖ قُلْتُ بَلٰی یَا رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ رَأْسُ الْاَمْرِ اَلْاِسَلَامُ وَعُمُوْدُہ، الصَّلَاُۃ وَذِرْوَۃُ سَنَامِہِ الْجِھَادِ ثُمَّ قَالَ اَلَا اُخْبِرُکَ بِمِلَاَک ذٰلِکَ کُلِّہٖ قُلْتُ بَلٰی یَانَبِیَّ اﷲِ فَأَخَذَ بِلِسَانِہٖ وَقَالَ کُفَّ عَلَیْکَ ھٰذَا فَقُلْتُ یَا نَبِیَّ اﷲِ وَاِنَّا لَمُؤَا خَذُوْنَ بَمَا نَتَکَلَّمُ بِہٖ قَالَ ثَکِلَتْکَ اُمُّکَ یَامُعَاذُ وَھَلْ یَکُبُّ النَّاسُ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْھِھِمْ اَوْعَلٰی مَنَا خِرِھِمْ اِلَّا حَصَائِدُ اَلْسِنَتِھِمْ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل الترمذی وابن ماجۃ)
ارکان دین
حضرت معاذ بن جبل ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے کوئی عمل ایسا بتا دیجئے جو مجھ کو جنت میں لے جائے اور دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھے، آپ ﷺ نے فرمایا حقیقت تو یہ ہے کہ تم نے ایک بہت بڑی چیز کا سوال کیا ہے لیکن جس پر اللہ تعالیٰ آسان کر دے اس کے لئے یہ بہت آسان بھی ہے پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، نماز پابندی کے ساتھ ادا کرو، زکوٰۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اور خانہ کعبہ کا حج کرو، پھر اس کے بعد فرمایا اے معاذ! کیا تمہیں خیر و بھلائی کے دروازوں تک نہ پہنچادوں (تو سنو) روزہ (ایک ایسی) ڈھال ہے (جو گناہ سے بچاتی ہے اور دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھتی ہے) اور اللہ کی راہ میں کرچ کرنا گناہ کو اس طرح مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے (اور اسی طرح) رات (تہجد) میں مومن کا نماز پڑھنا (گناہ کو ختم کردیتا ہے) پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (جس میں تہجد گزاروں اور رات میں اللہ کی عبادت کرنے والوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اس پوری آیت کا ترجمہ ہے) ان (مومنین صالحین) کے پہلو (رات میں) بستروں سے الگ رہتے ہیں (اور) وہ اپنے پروردگار کو خوف وامید سے پکارتے اور جو (مال) ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے وہ (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ ان (مومنین صالحین) کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے یہ ان کے اعمال کا صلہ (انعام) ہے جو وہ کرتے تھے، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تمہیں اس چیز (یعنی دین) کا سر اور اس کے ستون اور اس کے کوہان کی بلندی نہ بتادوں؟ میں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ! ضرور بتائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس چیز (دین) کا سر اسلام ہے، اس کے ستون نماز ہے اور اس کوہان کی بلندی جہاد ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا۔ کیا تمہیں ان تمام چیزوں کی جڑ نہ بتادوں؟ میں نے عرض کیا ہاں اللہ کے نبی ضرور بتائیے آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک پکڑی اور (اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) فرمایا اس کو بند رکھو۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ہم اپنی زبان سے جو بھی لفظ نکالتے ہیں ان سب پر مواخذہ ہوگا، آپ نے فرمایا معاذ! (دعا ثکتک امک) (تمہاری ماں تمہیں گم کر دے اچھی طرح جان لو کہ) (یہ ایک محا ورہ ہے جو عربی زبان میں اظہار تعجب کے لئے بولا جاتا ہے)۔ لوگوں کو ان کے منہ کے بل یا پیشانی کے بل دوزخ میں گرانے والی اسی زبان کی (بری) باتیں ہوں گی۔ (مسند احمد بن حنبل، ترمذی، ابن ماجہ)

تشریح
اس حدیث میں دین کی تصویر بڑے نفیساتی انداز میں اجاگر کی گئی ہے۔ مطلب یہ کہ جس طرح کسی جسمانی وجود کا مدار سر پر ہوتا ہے کہ اگر سر کو اڑا دیا جائے تو جسمانی وجود بھی باقی نہیں رہے گا، اسی طرح ایمان و اسلام یعنی عقیدہ توحید و رسالت دین کے لئے بمننرلہ سر کے ہیں کہ اگر توحید و رسالت کے اعتقاد کو ہٹا دیا جائے تو دین کا وجود بھی باقی نہیں رہے گا، پھر جس طرح کسی جسمانی وجود کو برقرار رکھنے اور کار آمد بنانے کے لئے ستون اولین اہمیت کا حامل ہوتا ہے اسی طرح دین کا ستون نماز ہے۔ نماز ہی وہ بنیادی طاقت ہے جو دین کے وجود کو وابستہ اور قائم رکھتی ہے اگر نماز کو ہٹا دیا جائے تو دین کو وجود اپنی اصلی حالت کی برقراری سے محروم ہوجائے۔ اور پھر جس طرح کسی جسمانی وجود کو باعظمت بنانے اور اس کی شوکت بڑھانے کے کسی امیتازی اور منفرد وصف و خصوصیت کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح جہاد ضرورت ہے جس پر دین کی عظمت و شوکت اور ترقی و وسعت کا انحصار ہے اگر جہاد کو (خواہ وہ قلم سے ہو یا زبان سے اور خواہ تلوار سے ہو یا تبیلغی جدوجہد سے) اہل اسلام کے ملی وصف سے خارج کردیا جائے تو دین ایک بےشکوہ اور بےاثر ڈھانچہ بن کر رہ جائے۔ حدیث کا آخری حصّہ زبان سے متعلق اس ہدایت پر مشتمل ہے جو دین کو اضمحلال اور دینی گندگی کو گھن سے بچانے کے لئے ایک بڑے نفسیاتی نکتہ کی غماز ہے۔ مطلب یہ کہ دین کے وجود، دین کے بقا اور دین کی عطمت و شوکت کو پہنچانے کی جڑ زبان ہے زبان کو قابو میں رکھنا دین و دنیا کی فلاح و نجات کا پیش خیمہ ہے اور زبان کو بےقابو چھوڑ دینا خود کو دین و دنیا کی تباہی کی طرف دھکیل دینا ہے لہٰذا لازم ہے کہ زبان بند رکھی جائے یعنی منہ سے ایسے الفاظ نہ نکالے جائیں جو برائی فحاشی اور بدکلامی کے حامل ہوں، وہ برے کلام جو کفر امیز یا گناہ اور فحاشی کے ہوں، یا کسی کی غیبت کرنا، جھوٹ بولنا اور یا الزام تراشی کرنا ایسی برائیاں ہیں جن سے زبان و ذہن کی حفاظت نہ کی گئی تو سمجھ لو دوزخ کا عذاب سامنے ہے۔ دین و دنیا کی بھلائی چاہنے والے اور ابدی نجات وسعادت کے طلب گار اسی لئے اپنی زبان پر قابو رکھتے ہیں کہ نہ معلوم کب اس سے کوئی ایسا لفظ و کلام نکل جائے جس سے کفر بکنا یا گناہ و معصیت کی بات کہنا لازم آجائے اور پھر اس کی پاداش میں اللہ کا عذاب بھگتنا پڑے۔ درحقیقت زبان بہت بڑی وجہ سعات بنتی ہے جب اس سے نیک کلام اچھی باتیں، خیر و بھلائی کے الفاظ اور وعظ و نصیحت کے جملے نکلتے ہیں، دنیا و آخرت میں اسی انسان کا رتبہ بلند مانا جاتا ہے جو زبان کی عطمت و تقدیس کو ہر حال میں ملحوظ رکھے۔ بدکلامی اور بری باتوں سے بہر صورت اجتناب کرتا ہوں۔
Top