مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 25
وَعَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ شَھِدَ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِےْکَ لَہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ وَاَنَّ عِےْسٰی عَبْدُاللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ وَابْنُ اَمَتِہٖ وَکَلِمَتُہُ اَلْقٰھَا اِلٰی مَرْےَمَ وَرُوْحٌ مِّنْہُ وَالْجَنَّۃُ وَالنَّارُ حَقٌّ اَدْخَلَہُ اللّٰہُ الْجَنَّۃَ عَلٰی مَا کَانَ مِنَ الْعَمَلِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
نجات کا دارومدار کس پر ہے
اور عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی اس بات کی گواہی دے (یعنی زبان سے قرار کرے اور دل سے سچ جانے) کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور کوئی اس کا شریک نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ بلا شبہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور (اس بات کی بھی شہادت دے کہ) عیسیٰ (علیہ السلام) (بھی) اللہ کے بندے اور رسول اور اللہ کی لونڈی (مریم) کے بیٹے اور اس کا کلمہ ہیں جس کو اس نے مریم کی جانب ڈالا تھا اور اللہ کی بھیجی ہوئی روح ہیں اور یہ کہ جنت و دوزخ حق (اور واقعی چیزیں) ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں ضرور داخل کرے گا خواہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

تشریح
اس حدیث کا حاصل یہی ہے کہ ابدی نجات کا دار و مدار ایمان و عقائد کی اصلاح پر ہے اس میں کسی قسم کی کوتاہی قابل معافی نہیں سکتی، ہاں اعمال کی کمزوریاں رحمت الٰہی سے معاف ہوسکتی ہیں۔ ایمان کی بنیاد چونکہ توحید کو ماننا اور اس کی شہادت دینا ہے اس لئے سب سے پہلے اسے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ اللہ کی وحدانیت اور اس کی الوہیت و ربوبیت پر صدق دل سے اعتقاد اور یقین رکھا جائے پھر اس کے بعد رسالت کا درجہ ہے تو ضروری ہے کہ رسول کی رسالت پر ایمان لایا جائے اسی طرح تمام رسولوں کی رسالت پر ایمان رکھنا بھی نجات کے لئے ضروری ہے۔ یہاں صرف حضرت عیسیٰ کا ذکر علامت کے طور پر بھی ہے اور ایک خاص وجہ سے بھی دراصل ان کے بارے میں ایک گروہ (یعنی عیسائیوں) کا عقیدہ یہ ہے کہ عیسیٰ ابن اللہ ہیں۔ اس باطل عقیدہ کی تردید کے لئے ان کا ذکر کیا گیا اور وضاحت کردی گئی کہ عیسیٰ نہ تو اللہ کے بیٹے ہیں اور نہ اللہ ان کے اندر حلول کئے ہوئے ہے بلکہ وہ اللہ بندے اور اس کے رسول ہیں جسے اس نے اپنی ایک باندی مریم کے پیٹ سے پیدا کیا اسی لئے ان کو کلمۃ اللہ کہا جاتا ہے کہ ان کی پیدائش بغیر باپ کے صرف اللہ کے حکم کلمہ کن سے ہوئی۔ روح اللہ ان کو اس لئے نہیں کہا گیا کہ ان کے اندر اللہ کا کوئی جزو یا اللہ کی روح شامل ہے بلکہ روح اللہ آپ کا لقب اس لئے قرار دیا گیا کہ آپ اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کردیا کرتے تھے اور مٹی کی چڑیاں بنا کر اور ان میں جان ڈال کر اڑا دیا کرتے تھے۔ عقیدہ توحید و رسالت کے بعد تصور آخرت کا عقیدہ بھی بنیادی ہے یعنی اس بات پر ایمان و یقین رکھنا کہ مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنا برحق ہے اور جنت دروزخ واقعی چیزیں ہیں، یہ وہ عقائد ہیں جن کا ماننا، صدق دل سے ان پر ایمان رکھنا اور خلوص نیت سے ان کو تسلیم کرنا ابدی نجات کا ضامن ہے۔ ان عقائد کو مانتے ہوئے اگر اعمال کی کو تاہیاں بھی ہوں تو اس صورت میں بھی اس حدیث نے جنت کی خوشخبری دی ہے۔ لیکن جہاں تک مسئلے کا تعلق ہے یہ بات طے ہے کہ جو عملی کو تاہیاں اور بداعمالیاں رحمت الٰہی سے معاف نہیں ہوں گی ان پر سزا ضرور ملے گی مگر سزا پوری ہونے کے بعد اس کو بھی جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ لہٰذا اس حدیث کو اس مفہوم میں لینا چاہیے کہ اگر ان عقائد کے ماننے کے بعد کسی نے اعمال بھی اچھے کئے، شریعت کی پیروی کرتے ہوئے تمام احکام بجالایا اور خلاف شرع کوئی کام نہیں کیا تو بغیر کسی عذاب و سزا کے اسے جنت میں داخل کیا جائے گا اور اگر کسی نے ان عقائد کو ماننے کے بعد اعمال اچھے نہ کئے شریعت کی پابندی نہیں کی، اللہ اور اللہ کے رسول کے احکام کی فرمانبرداری نہیں کی تو وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگتے گا مگر آخر کار اسے جنت میں داخل کردیا جائے گا۔
Top