اللہ تعالیٰ کا صبر و تحمل
اور حضرت ابوموسی اشعری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تکلیف دہ کلمات سن کر اللہ تعالیٰ سے زیادہ صبر و تحمل کرنے والا کوئی نہیں، لوگ اس کے لئے بیٹا تجویز کرتے ہیں وہ اس پر بھی (ان سے انتقام نہیں لیتا بلکہ) ان کو عافیت بخشتا ہے اور روزی پہنچاتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )
تشریح
رب قدوس کی ذات اس سے پاک اور بالاتر ہے کہ کوئی انسان اگر اپنے قول و فعل سے اس کو تکلیف پہنچانا ہے چاہے، تو وہ کامیاب ہوجائے یا کوئی آدمی اس کو نقصان پہنچانا چاہے تو اسے نقصان پہنچ جائے اس لئے یہاں یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ واقعی اس کو انسان کے قول فعل سے تکلیف پہنچتی ہے اور وہ صبر و تحمل کرتا ہے اور نہ اس حدیث کا مقصد اس بات کو ظاہر کرتا ہے۔ اصل منشاء انسانی دل و دماغ کو جھنجوڑنا اور عقل و شعور کو بیدار کرنا ہے کہ جب اللہ کی اپنی بنائی ہوئی مخلوق اسی کے پیدا کئے ہوئے انسان اسی کے خزانہ قدرت سے مستفید ہونے والے لوگ اپنے قول و فعل سے اللہ کو ایذاء پہنچانے کے سامان تیار کرتے ہیں اس کو تکلیف دینے کا ادارہ کرتے ہیں جیسے اس کی نافرمانی کرنا اس کے احکام و ہدایات اور اس کے دین کا مذاق اڑانا اور اس کی طرف ان چیزوں کی نسبت کرنا جن سے اس کی ذات بالکل پاک اور منزہ ہے مثلاً کسی کو اس کا جوڑا قرار دینا تو یہ ایسی باتیں ہیں کہ جن پر اس کا غضب اگر بھڑک اٹھے تو نہ صرف ان لوگوں کا تمام نظام زندگی تباہ و برباد کر کے رکھ دے بلکہ پوری کائنات کو ایک ہی لمحے میں نیست و نابود کر ڈالے۔ مگر اس کے برداشت و تحمل کو دیکھو کہ وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے کے باوجود کوئی انتقامی کاروائی نہیں کرتا، کسی کی روٹی روزی بند نہیں کرتا، کسی کو زندگی کے وسائل و ذرائع سے محروم نہیں کرتا، جس طرح اس کے نیک اور اطاعت گزار بندے اس کے فضل و کرم کے سایہ میں ہیں اسی طرح بدکار اور سرکش بندے بھی اس کے خزانہ رحمت سے پل رہے ہیں اس کی نعمتوں سے مستفید ہو رہے ہیں۔