مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 132
عَنْ جَابِرِ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِلٰی سَعْدِ بْنِ مُعَاذِ حِیْنَ تُوُ فِّیَ فَلَمَّا صَلَّی صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَوُضِعَ فِیْ قَبْرِہٖ وَسُوِّیَ عَلَیْہِ سَبَّحَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَسَبَّحْنَا طَوِیْلًا ثُمَّ کَبَّرَ فَکَبَّرْنَا فَقِیْلَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ لِمَ سَبَّحْتَ ثُمَّ کَبَّرْتَ فَقَالَ لَقَدْ تَضَایَقَ عَلٰی ھٰذَا الْعَبْدِا الصَّالِحِ قَبْرُہ، حَتّٰی فَرَّجَہُ اﷲُ عَنْہُ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل)
عذاب قبر کے ثبوت کا بیان
حضرت جابر ؓ راوی ہیں کہ حضرت سعد بن معاذ ؓ کی وفات کے بعد ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ان کے جنازہ پر گئے، جب رسول اللہ ﷺ جنازہ کی نماز پڑھ چکے اور حضرت سعد ؓ کو قبر میں اتار کر قبر کی مٹی برابر کردی گئی تو سرکار دو عالم ﷺ تسبیح (یعنی سبحان اللہ) پڑھتے رہے پھر آپ ﷺ نے تکبیر (یعنی اللہ اکبر) کہی ہم نے بھی تکبیر کہی، پھر رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ یا رسول ﷺ آپ نے تسبیح کیوں پڑھی اور پھر تکبیر کیوں کہی؟ فرمایا اس بندہ صالح پر اس کی قبر تنگ ہوگئی تھی پھر اللہ نے ہماری تسبیح و تکبیر کی وجہ سے اسے کشادہ کردیا۔ (مسند احمد بن حنبل) فائدہ تسبیح و تکبیر سے اللہ کا غضب رحمت میں اور اس کا غصہ شفقت میں بدل جاتا ہے اور وہاں مقدس کلموں کی بدولت اپنی رحمت و نعمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ چنانچہ اسی لئے خوف و دہشت کے موقع پر یا کسی خوفناک چیز کو دیکھ کر تکبیر مستحب ہے۔ تسبیح و تکبیر کا جنتا ورد رکھا جائے گا اتنا ہی اللہ کی رحمت سے قریب ہوتا جائے گا اور دنیاوی آفات و بلا نیز غضب الٰہی سے دور ہوتا ہوجائے گا۔
Top