مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 128
وَعَنِ الْبَرَآءِ بْنِ عَازِبِ عَنْ رَّسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ یَاْتِیْہِ مَلَکَانِ فَیُجْلِسَانِہٖ فَیَقُوْلَانِ لَہ، مَنْ رَّبُّکَ فَیَقُوْلُ رَبِّیَ اﷲُ فَیَقُوْلَانِ لَہ، مَا دِیْنُکَ فَیَقُوْلُ دِیْنِیَ الْاِسْلَامُ فَیَقُوْلَانِ لَ،ہ مَا ھٰذَا لرَّجُلُ الَّذِیْ بُعِثَ فِیْکُمْ فَیَقُوْلُ ھُوَرَسُوْلُ اﷲِ فَیَقُوْلَانِ لَہ، وَمَا یُدْرِیْکَ فَیَقُوْلَ قَرَأْتُ کِتَابَ اﷲِ فَاٰمَنْتُ بِہٖ وَ صَدَّقْتُ فَذٰلِکَ قَوْلَہ، یُثَبِّتُ اﷲُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِالْقَوْلِ الثَّابِتِ اَلْاَیَۃَ قَالَ فَیُنَادِیْ مُنَادِ مِّنَ السَّمَآءِ اَنْ صَدَقَ عَبْدِیْ فَاَفْرِ شُوْہُ مِنَ الْجَنَّۃِ وَاَلْبِسُوْہُ مِنَ الْجَنَّۃ وَافْتَحُوْالَہ، بَابًا اِلَی الْجَنَّۃِ فَیُفْتَحُ لَہ، قَالَ فَیَاْتِیْہِ مِنْ رُوْحِھَا وَطِیْبِھَا وَیُفْسَحُ لَہ، فِیْھَا مَدَّ بَصَرِہٖ وَاَمَّا الْکَافِرُ فَذَکَرَ مَوْتَہ، قَالَ وَیُعَادُ رُوْحُہ، فِیْ جَسَدِہٖ وَیَاْتِیْہِ مَلَکَانِ فَیُجْلِسَانِہٖ فَیَقُوْلَانِ لَہ، مَنْ رَبُّکَ فَیَقُوْلُ ھَاہْ ھَاہْ لَا اَدْرِیْ فَیَقُوْلَانِ لَہ، مَا دِیْنُکَ فَیَقُوْلُ ھَا ہْ ھَاہْ لَا اَدْرِیْ فَیَقُوْلَانِ لَہ، مَا ھٰذَا ارَّجُلُ الَّذِیْ بُعِثَ فِیْکُمْ فَیَقُوْلَ ھَاہْ ھَاہْ لَا اَدْرِیْ فَیُنَادِیْ مُنَادِ مِنَ السَّمَآءِ اَنْ کَذَب فَاَفْرِ شُوْہُ مِنَ النَّارِ وَ اَلْبِسُوْہُ مِنَ النَّارِ وَ افْتَحُوْالَہ، بَابًا اِلَی النَّارِ قَالَ فَیَاْتِیْہِ مِنْ حَرِّھَاوَسَمُوْمِھَا قَالَ وَیُضَیَّقُ عَلَیْہِ قَبْرُہ، حَتّٰی تَخْتَلِفَ فِیْہِ اَضْلَاعُہ، ثُمَّ یُقَیَّضُ لَہ، اَعْمٰی اَصَمَّ مِعْہَ مِرْزَبَۃٌ مِنْ حَدِیْہِ لَوْ ضُرِبَ بِھَا جَبَلٌ لَصَارَ تُرَابًا فَیَضْربُہ، بِھَا ضَرْبَۃً یَّسْمَعُھَا مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ اِلَّا الثَّقَلَیْنِ فَیَصِیْرُ تُرَابًا ثُمَّ یُعَادُ فِیْہِ الرُّوْحُ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد)
عذاب قبر کے ثبوت کا بیان
اور حضرت براء بن عازب راوی ہیں رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں، کہ آپ ﷺ نے فرمایا (قبر میں) مردے کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے میرا رب اللہ ہے! پھر فرشتے پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے وہ جواب میں کہتا ہے، میرا دین اسلام ہے پھر فرشتے اس سے سوال کرتے ہیں، جو آدمی (اللہ کی طرف سے) تمہارے پاس بھیجا گیا تھا وہ کون ہے؟ وہ کہتا ہے وہ اللہ کے رسول ہیں پھر فرشتے اس سے پوچھتے ہیں یہ تجھے کس نے بتایا وہ کہتا ہے میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اور اس پر ایمان لایا اور اس کو سچ جانا، (یعنی جو کلام اللہ پر ایمان لائے گا وہ رسول اللہ ﷺ پر پہلے ایمان لائے گا) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کا۔ آیت (يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ ) 14۔ ابراہیم 27) (الایۃ) یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ثابت قدم رکھتا ہے جو ثابت بات پر ایمان لائے (اخیر آیت تک) رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ آسمان سے پکارنے والا (یعنی اللہ تعالیٰ یا اس کے حکم سے فرشتہ) پکار کر کہتا ہے میرے بندے نے سچ کہا لہٰذا اس کے لئے جنت کا فرش بچھاؤ اور اس کو جنت کی پوشاک پہناؤ اور اس کے واسطے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو، چناچہ جنت کی طرف دروزاہ کھول دیا جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ( جنت کے دروازہ سے) اس کے پاس جنت کی ہوائیں اور خوشبوئیں آتی ہیں اور حد نظر تک اس قبر کو کشادہ کردیا جاتا ہے اب رہا کافر! تو رسول اللہ ﷺ نے اس کی موت کا ذکر کیا اور اس کے بعد فرمایا کہ پھر اس کی روح اس کے جسم میں ڈالی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس کو بٹھا کر پوچھتے ہیں، تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے، ہاہ ہاہ میں نہیں جانتا، پھر وہ پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے، ہاہ ہاہ میں نہیں جانتا پھر وہ پوچھتے ہیں، یہ آدمی کون ہے (جو اللہ کی جانب سے) تم میں بھیجا گیا تھا، وہ کہتا ہے ہاہ ہاہ میں نہیں جانتا پھر آسمان سے ایک پکارنے والا پکار کر کہے گا، یہ جھوٹا ہے اس کے لئے آگ کا فرش بچھاؤ، آگ کا لباس اسے پہناؤ اور اس کے واسطے ایک دروازہ دوزخ کی طرف کھول دو آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ دوزخ سے اس کے پاس گرم ہوائیں اور لوئیں آتی ہیں اور فرمایا اور اس کی قبر اس کے لئے تنگ کردی جاتی ہے، یہاں تک کہ ادھر کی پسلیاں ادھر اور ادھر کی پسلیاں ادھر نکل آتی ہیں، پھر اس پر ایک اندھا اور بہرا فرشتہ مقرر کیا جاتا ہے جس کے پاس لوہے کا ایسا گرز ہوتا ہے کہ اس کو اگر پہاڑ پر مارا جائے تو پیھاڑ مٹی ہوجائے اور وہ فرشتہ اس کو اس گرز سے اس طرح مارتا ہے کہ (اس کے چیخنے چلانے کی آواز مشرق سے مغرب تک تمام مخلوقات سنتی ہے مگر جن و انسان نہیں سنتے اور اس مارنے سے وہ مردہ مٹی ہوجاتا ہے اس کے بعد پھر اس کے اندر روح ڈالی جاتی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد) فائدہ ہاہ ہاہ ایک لفظ ہے جو عربی میں دہشت زدہ اور متحیر آدمی بولتا ہے جیسے اردو میں حیرت و دہشت کے وقت آہ، ہائے اور وائے وائے بولا جاتا ہے، مطلب یہ ہے کہ اس وقت کافر اتنا خوف زدہ ہوجاتا ہے کہ اس کی زبان سے ہیبت ناکی سے خوف و حسرت کے الفاظ نکلتے ہیں اور وہ صحیح جواب نہیں دے پاتا اور وہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا اس کے اس جواب پر ندائے غیب سے اس کو جھوٹا قرار دیا جاتا ہے، اس لئے کہ دین اسلام کی آواز مشرق سے لے کر مغرب تک پہنچی اور پیغمبر اسلام ﷺ نے اپنا مشن چار دانگ عالم میں پھیلایا اور تمام دنیا اس آفاقی و آسمانی مذہب سے باخبر تھی، اس کے باوجود اس کا یہ کہنا کہ میں کچھ نہیں جانتا یا مجھے کچھ معلوم نہیں ہوا، سراسرکذب اور جھوٹ ہے۔ قبر میں عذاب کے جو فرشتے مقرر کئے جاتے ہیں وہ اندھے اور بہرے ہوتے ہیں، اس کی حکمت یہ ہے کہ وہ نہ تو مردہ کے چیخنے چلانے کی آواز سن سکیں اور نہ اس کے حال کو دیکھ سکیں تاکہ رحم نہ آسکے۔ نیز اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ معذب مردہ کے جسم میں بار بار روح ڈالی جاتی ہے تاکہ اس پر عذاب شدید سے شدید ہو سکے اور یہ اس چیز کا انجام ہے کہ وہ دنیا میں عذاب قبر کا انکار کیا کرتا تھا اور اس کو جھٹلایا کرتا تھا۔ (نعوذ با اللہ )۔
Top