مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 126
وَعَنْ زَیدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ قَالَ بَےْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ حَآئِطٍ لِّبَنِیْ النَّجَّارِ عَلٰی بَغْلَۃٍ لَّہُ وَنَحْنُ مَعَہُ اِذْا حَادَتْ بِہٖ فَکَادَتْ تُّلْقِےْہِ وَاِذَ اَقْبُرٌ سِتَّۃٌ اَوْ خَمْسَۃٌ فَقَالَ مَنْ ےَّعْرِفُ اَصْحَابَ ھٰذِہِ الْاَقبُرِ قَالَ رَجُلٌ اَنَا قَالَ فَمَتٰی مَاتُوْا قَالَ فِی الشِّرْکِ فَقَالَ اِنَّ ھٰذِہِ الْاُمَّۃَ تُبْتَلٰی فِیْ قُبُوْرِھَا فَلَوْلَا اَنْ لَّا تَدَافَنُوْا لَدَعَوْتُ اللّٰہَ اَنْ ےُّسْمِعَکُمْ مِّنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِیْ اَسْمَعُ مِنْہُ ثُمَّ اَقْبَلَ عَلَےْنَا بِوَجْھِِہٖ فَقَالَ تَعَوَّذُوْا بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ قَالُوْا نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ قَالَ تَعَوَّذُوْا بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ قَالُوْا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ قَالَ تَعَوَّذُوْا بِاللّٰہِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَہَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ قَالُوْا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ قَالُوْا نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَہَرَ مِنْھَا وَمَابَطَنَ قَالَ تَعَوَّذُوْا بِاللّٰہِ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ قَالُوْا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ ۔(صحیح مسلم)
عذاب قبر کے ثبوت کا بیان
اور حضرت زید بن ثابت ( زید بن ثابت انصاری خزرجی ہیں آپ کاتب وحی ہیں۔ آپ کی وفات ٤٢ ھ یا ٤٥ میں ہوئی)۔ راوی ہیں کہ (ایک روز) جب کہ رسول اللہ ﷺ بنی نجار کے باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے اور ہم بھی آپ ﷺ کے ہمراہ تھے کہ اچانک خچر بدک گیا اور قریب تھا کہ آپ ﷺ کو گرادے، ناگہاں پانچ چھ قبریں نظر آئیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ان قبر والوں کو کوئی جانتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا، میں جانتا ہوں! آپ ﷺ نے فرمایا۔ یہ کب مرے ہیں؟ (یعنی حالت کفر میں مرے ہیں یا ایمان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں) اس آدمی نے عرض کیا۔ یہ تو شرک کی حالت میں مرے ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا یہ امت اپنی قبروں میں آزمائی جاتی ہے (یعنی ان لوگوں پر ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے) اگر مجھ کو یہ خوف نہ ہوتا کہ تم (مردوں کو) دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں ضرور اللہ سے یہ دعا کرتا کہ وہ تم کو بھی عذاب قبر (کی اس آواز) کو سنا دے جس کو میں سن رہا ہوں، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا قبر کے عذاب سے خدا کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا ہم آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا۔ عذاب قبر سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا ظاہری اور باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا۔ ہم دجال کے فتنہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔ (صحیح مسلم)

تشریح
نبی کا احساس و شعور اور اس کی قوت ادراک دنیا کے تمام لوگوں سے بہت زیادہ قوی ہوتی ہے چونکہ اس کے احساس ظاہری و باطنی میں وہ قدرتی طاقت ہوتی ہے جس کی بناء پر وہ اس دنیا سے بھی آگے عالم غیب کی چیزوں کا ادراک کرلیتا ہے اس لئے اس کی ظاہری آنکھوں کے ساتھ ساتھ باطنی آنکھیں بھی اتنی طاقتور ہوتی ہیں کہ وہ غیب کی ان چیزوں کو بھی دیکھ لیتا ہے جسے اللہ تعالیٰ اسے دکھانا چاہتا ہے۔ چانچہ سرکار دو عالم ﷺ کہیں سفر میں جا رہے تھے جب آپ ﷺ کا گزر ایک قبرستان پر ہوا تو وہاں آپ کی چشم بصیرت نے ادراک کرلیا کہ قبروں میں مردوں پر عذاب ہو رہا ہے اور پھر آپ ﷺ نے صحابہ کو تلقین کی کہ وہ عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہیں عذاب قبر کی شدت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ اگر تمہاری آنکھیں اس کا مشاہدہ کرلیں اور تمہارے کان اس کو سن لیں تو تم اپنی عقل و دماغ سے ہاتھ دھو بیٹھو اور تم اس کی شدت و سختی کا محض احساس ہی کر کے بےہوش ہوجاؤ گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم اس خوف و ہر اس کی وجہ سے مردوں کو دفن کرنا بھی چھوڑ دو گے اگر مجھے اس کا خدشہ نہ ہوتا تو میں یقینا تمہیں اس عذاب کا مشاہدہ بھی کر ا دیتا اور تمہیں سنوا بھی دتیا۔
Top