مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 125
عَنْ عَائِشَۃَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ ےَھُوْدِےَّۃً دَخَلَتْ عَلَےْھَا فَذَکَرَتْ عَذَابَ الْقَبْرِ فَقَالَتْ لَھَا اَعَاذَکِ اللّٰہُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَسَأ لَتْ عَائِشَۃُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَقَالَ نَعَمْ عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ قَالَتْ عَائِشَۃُ فَمَا رَأَ ےْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم بَعْدُ صَلّٰی صَلٰوۃً اِلَّا تَعَوَّذَ بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
عذاب قبر کے ثبوت کا بیان
اور حضرت عائشہ راوی ہیں کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی اور اس نے قبر کے عذاب کا ذکر کیا اور پھر اس نے حضرت عائشہ ؓ کہا عائشہ! اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب قبر سے محفوظ رکھے! حضرت عائشہ نے سرکار دو عالم ﷺ سے عذاب قبر کا حال پوچھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں قبر کا عذاب حق ہے! حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اس واقعہ کے بعد میں نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو نہیں دیکھا کہ آپ ﷺ نے کوئی نماز پڑھی ہو اور قبر کے عذاب سے پناہ نہ مانگی ہو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

تشریح
حضرت عائشہ صدیقہ کو عذاب قبر کا حال معلوم نہیں ہوگا چناچہ جب اس یہودی عورت نے ان سے اس کا تذکرہ کیا تو وہ بڑی حیران ہوئیں اور سرکار دو عالم ﷺ سے اس کے بارے میں سوال کیا جس کا جواب دیا گیا کہ قبر کا عذاب حق اور یقینی ہے، یعنی اس بات کا اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ قبر میں گناہ گار لوگوں پر اللہ کی جانب سے طرح طرح کے عذاب مسلط کئے جاتے ہیں اور اس کا احساس و ادراک اس دنیا میں نہیں کیا جاسکتا۔ سرکار دو عالم ﷺ کے پناہ مانگنے کے بارے میں احتمال ہے کہ ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ کو بھی پہلے سے قبر کے عذاب کا حال معلوم نہ ہوا ہو، اس کے بعد بذریعہ وحی آپ ﷺ کو اس کا علم ہوا ہو جس کے بعد سے آپ ﷺ نے پناہ مانگنی شروع کردی اور ظاہر ہے کہ نعوذ باللہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تو قبر میں اس قسم کو کوئی معاملہ ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس لئے کہا جائے گا کہ آپ ﷺ کا پناہ مانگنا محض امت کی تعلیم کے لئے تھا کہ جب اللہ کا محبوب و برگزیدہ بندہ اور اس کا پیارا رسول بھی عذاب قبر سے پناہ مانگ رہا ہے تو امت کے تمام لوگوں کو چاہئے کہ عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہیں۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ عذاب قبر کا حال رسول اللہ ﷺ کو پہلے سے معلوم تھا اور پوشیدہ طور پر اس سے پناہ بھی مانگتے ہوں گے جس کی حضرت عائشہ کو خبر نہیں ہوگی، بعد میں حضرت عائشہ کے سوال کے بعد آپ ﷺ نے کھلے طور پر پناہ مانگنی شروع کردی ہوتا کہ دوسرے بھی متنبہ ہوں اور عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہیں۔
Top