مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 122
عَنِ الْبَرَآءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اَلْمُسْلِمُ اِذَا سُئِلَ فِی الْقَبْرِ ےَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ فَذَالِکَ قَوْلُہُ ےُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِےْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَےٰوۃِ الدُّنْےَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ (ابراھیم پ١٣۔رکوع١٦)وَفِی رِوَاےَۃٍ عَنِِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ ےُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِےْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ نَزَلَتْ فِی عَذَابِ الْقَبْرِ ےُقَالُ لَہُ مَنْ رَّبُّکَ فَےَقُوْلُ رَبِّیَ اللّٰہُ وَنَبِیِّیْ مُحَمَّدٌ صلی اللہ علیہ وسلم ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
عذاب قبر کے ثبوت کا بیان
حضرت براء بن عازب ( اسم گرامی براء بن عازب اور کنیت ابوعمارہ ہے مدینہ کے باشندہ اور انصاری ہیں جنگ بدر میں آپ شریک نہیں ہوسکے تھے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے صغر سنی کی وجہ سے روک دیا تھا سب سے پہلے غزوہ احد میں شریک ہوئے ہیں)۔ راوی ہیں کہ سرکار کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا جس وقت قبر میں مسلمان سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بلا شبہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور یہی مطلب ہے اس ارشاد بانی کا یُثَبِّتُ ا ُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فَی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وِفِیْ الْاٰخِرَۃِ (القرآن) ترجمہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ثابت و قائم رکھتا ہے جو ایمان لاتے ہیں مضبوط و محکم طریقہ پر ثابت رکھنا دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ آیت (يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ ) 14۔ ابراہیم 27) عذاب قبر کے بیان میں نازل ہوئی ہے (چنانچہ قبر میں مردہ سے) سوال کیا جاتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور میرے نبی محمد ﷺ ہیں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
آیت مذکورہ میں بالقول الثابت سے مراد کلمہ شہادتے ہے یعنی جب مومن سے قبر میں سوال کیا جاتا ہے کہ تیرا پروردگار کون ہے اور تیرا پیغمبر کون ہے اور تیرا دین کیا تو ان تینوں سوالوں کا جواب اسی کلمہ شہادت میں ہے۔ آیت کے دوسرے جز کا مطلب یہ ہے جو لوگ ایمان و یقینی کی روشنی سے اپنے قلوب کو منور کرلیتے ہیں اور جن کے دل میں ایمان و اسلام کی حقانیت راسخ اور پختہ ہوجاتی ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دونوں جگہ ان پر رحمت الٰہی کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ دنیاوی زندگی کا اس کا فضل تو یہ ہے کہ وہ اپنے ان نیک بندوں کو کلمہ اسلام کی حقانیت کے اعتقاد پر قائم رکھتا ہے اور ان کے دل میں ایمان و اسلام کی وہ روح اور طاقت بھر دیتا ہے کہ دنیاوی امتحان و آزامائش کے سخت سے سخت موقع پر بھی ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آتی وہ اپنی جانوں کو قربان کردینا اور آگ میں ڈالے جانا پسند کرتے ہیں لیکن اپنے ایمان و اعتقاد میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کرنا گوارہ نہیں کرتے۔ اخروی زندگی میں اس کی رحمت اس طرح ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی بیشمار نعمتوں سے نوازے جاتے ہیں اور عالم برزخ میں جب قبر کے اندر ان سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ ٹھیک ٹھیک جواب دیتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ ہمیشہ کی نجات اور اکرام الٰہی کے مستحق قرار دے دیئے جاتے ہیں۔
Top