مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 118
وَعَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبِ فِیْ قَوْلِ اﷲِ عَزَّوَجَلَّ وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُھُوْرِ ِھْم ذُرِّیَّتَھُمْ قَالَ جَمَعَھُمْ فَجَعَلَھُمْ اَزْوَا جًا ثُمَّ صَوَّرْ ھُمْ فَاسْتَنْطَقَھُمْ فَتَکَلَّمُوْا ثُمَّ اَخَذَ عَلَیْھِمُ الْعَھْدَ وَالْمِیْثَاقَ وَاَشْھَدَ ھُمْ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی قَالَ فَاِنِّیْۤ اُشْھِدُ عَلَیْکُمُ السَّمٰوَاتِ السَّبْعَ وَالْاَرْضِیْنَ السَّبْعَ وَاُشْھِدُ عَلَیْکُمْ اَبَاکُمْ اٰدَمَ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَمْ نَعْلَمْ بِھٰذَا اِعْلَمُوْآ اَنَّہ، لَآ اِلٰہَ غَیْرِیْ وَلَا رَبَّ غَیْرِیْ وَلَا تُشْرِکُوْا بِیْ شَیْئًا اِنِّیْ سَاُرْسِلُ اِلَیْکُمْ رُسُلِیْ یُذَکِّرُوْنَکُمْ عَھْدِیْ وَمِیْثَاقِیْ وَاُنْزِلُ عَلَیْکُمْ کُتُبِیْ قَالُوْا شَھِدْنَا بِاَنَّکَ رَبُّنَا وَاِلٰھُنَا لَا رَبَّ لَنَا غَیْرُکَ وَلَا اِلٰہَ لَنَا غَیْرُکَ فَاَقَرُّوْ بِذٰلِکَ وَرُفِعَ عَلَیْھِمْ اٰدَمُ یَنْظُرُ اِلَیْھِمْ فَرَأی الْغَنِیَّ وَالْفَقِیْرَ وَ حَسَنَ الصُّوْرَۃِ وَدُوْنَ ذٰلِکَ فَقَالَ رَبِّ لَوْ لَا سَوَّیْتِ بَیْنَ عِبَادِکَ قَالَ اِنِّیْۤ اَحْبَبْتُ اَنْ اُشْکَرَوَرَأَی الْاَنْبِیَآءَ فِیْھِمْ مِّثْلَ السُّرُجِ عَلَیْھِمْ النُّوْرُ خُصُّوْا بِمِیْثَاقِ اَخِّرَفِی الرِّسَالَۃِ وَالنُّبْوَّۃِ وَھُوَ قَوْلَہ، تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَاِذْا اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّنَ مِیْثَا قَھُمْ اِلٰی قَوْلِہٖ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ کَانَ فِی تِلْکَ الْاَرْوَاحِ فَاَرْسَلَہ، اِلٰی مَرْیَمَ عَلَیْھَا السَّلَامُ فَحُدِّثَ عَنْ اُبَیِّ اَنَّہ، دَخَلَ مِنْ فِیِّھَا۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل)
تقدیر پر ایمان لانے کا بیان
اور حضرت ابی بن کعب اس آیت (وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِيْ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ ) 7۔ الاعراف 172) (جب تمہارے پروردگار نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد نکالی)۔ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ نے (اولاد آدم کو) جمع کیا اور ان کو طرح طرح کا قرار دیا (یعنی کسی کو مالدار کسی کو غریب کرنے کا ارادہ کیا پھر ان کو شکل و صورت عطا کی اور پھر گویائی بخشی اور انہوں نے باتیں کیں پھر ان سے عہد و پیمان کیا اور پھر ان کو اپنے اوپر گواہ قرار دے کر پوچھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ اولاد آدم نے کہا، بیشک! (آپ ہمارے رب ہیں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں سات آسمانوں اور ساتوں زمینوں کو تمہارے سامنے گواہ بناتا ہوں اور تمہارے باپ آدم کو بھی شاہد قرار دیتا ہوں اس لئے کہ قیامت کے دن کہیں تم یہ نہ کہنے لگو کہ ہم اس سے ناواقف تھے (اس وقت) تم اچھی طرح جان لو کہ نہ تو میرے سوا کوئی معبود ہے اور نہ میرے سوا کوئی پروردگار ہے، (اور خبردار) کسی کو میرا شریک قرار نہ دینا، میں تمہارے پاس عنقریب اپنے رسول بھیجوں گا، جو تمہیں میرا عہد و پیماں یاد دلائیں گے اور تم پر اپنی کتابیں نازل کروں گا (یہ سن کر) اولاد آدم نے کہا، ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ تو ہمارا رب ہے اور تو ہی ہمارا معبود ہے، تیرے سوا نہ تو ہمارا کوئی پروردگار ہے اور نہ تیرے علاوہ ہمارا کوئی معبود ہے، چناچہ آدم کی ساری اولاد نے اس کا اقرار کیا اور حضرت آدم کو ان کے اوپر بلند کردیا گیا وہ (اپنی نگاہیں بلند کئے ہوئے) اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔ آدم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ ان کی اولاد امیر بھی ہیں اور فقیر بھی اور خوبصورت بھی ہیں اور بد صورت بھی (یہ دیکھ کر انہوں نے عرض کیا، پروردگار اپنے تمام بندوں کو تو نے یکساں کیوں نہیں بنایا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں اسے پسند کرتا ہوں کہ میرے بندے میرا شکر ادا کرتے ہیں پھر آدم نے انبیاء کو دیکھا جو چراغ کی مانند روشن تھے اور نور ان کے اوپر جلوہ گر تھا ان سے خصوصیت کے ساتھ رسالت و نبوت کے لئے عہدو پیماں لئے گئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے آیت (واذاخذ من النبین میثاقہم ومنک ومن نوح و ابراہیم وموسی و عیسی بن مریم) (قرآن حکیم) ترجمہ اور جب ہم نے پیغمبروں سے ان کا عہد و پیمان لیا اور آپ محمد ﷺ سے اور نوح اور ابراہیم سے اور موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے (بھی) عہد و پیمان لیا، ان روحوں کے درمیان حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی تھے چناچہ ان کی روح کو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ذریعہ حضرت مریم (علیہا السلام) کے پاس بھیج دیا۔ حضرت ابی بیان کرتے ہیں کہ یہ روح حضرت مریم (علیہا السلام) کے منہ کی طرف سے ان کے جسم میں داخل ہوگئی۔ (مسند احمد بن حنبل)

تشریح
حضرت آدم (علیہ السلام) نے جب ان ارواح میں فرق دیکھا کہ انہیں کی اولاد میں سے کوئی تو سرمایہ دار اور صاحب دولت ہے اور کوئی غریب و مفلس تو انہیں حیرت ہوئی اور انہوں نے بارگاہ الوہیت میں عرض کیا کہ الہ العلمین! سب میری اوالاد میں سے ہیں اور یہ سبھی تیرے بندے ہیں پھر ان میں یہ فرق کیوں؟ کوئی صاحب حیثیت ہے او کوئی لاچار، کسی کو عزت و دولت دے رکھی ہے اور کسی کو غربت و مفلسی!۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ان میں فرق پیدا کرنے کی ایک حکمت ہے اور اس میں ایک مصلحت ہے اور وہ یہ کہ اگر میں سب کو یکساں پیدا کردیتا تو یہ شکر ادا نہ کرتے اور جب ایک انسان میں وہ صفات و خصائل پیدا کردیئے جائیں گے جو دوسرے انسانوں میں نہیں ہوں گے تو وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر شکر ادا کیا کریں گے مثلاً تنگدست اور مفلس میں تقوی، اطاعت الٰہی کا مادہ، سکون قلب و دماغ اور دنیا سے بےفکری ہوتی ہے، جو کسی غنی اور مالدار میں نہیں ہوتی اسی طرح غنی و مالدار کو دولت کی فراوانی اور اسباب معیشت کی آسانیاں حاصل ہوتی ہیں جو غریب و محتاج کو میسر نہیں۔ لہٰذا! جس کے اندر جو خصائل ہوں گے اور وہ ان کی لذت سے نا آشنا ہوگا، دوسرے کے اندر اس کا فقدان دیکھ کر اس نعمت پر شکر گزار ہوگا جس کی بناء پر اللہ کی رحمت کا مستحق قرار دیا جائے گا۔
Top