مشکوٰۃ المصابیح - ایمان کا بیان - حدیث نمبر 103
وَعَنْہ، قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْقَدَرِیَّۃُ مَجُوْسُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِنْ مَرِضُوْافَلَا تَعُوْدُوْھُمْ وَاِنْ مَاتُوْا فَلَا تَشْھَدُوْھُمْ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل وابوداؤد)
تقدیر پر ایمان لانے کا بیان
اور حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ راوی فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا فرقہ قدریہ اس امت کے مجوس ہیں لہٰذا اگر وہ بیمار ہوں تو ان کی عیادت کے لئے نہ جاؤ اور اگر وہ مرجائیں تو ان کے جنازہ میں شریک مت ہونا۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد)

تشریح
اس حدیث سے قدریہ کی صریح گمراہی اور ان کی ضلالت واضح ہے کہ ان کو اس امت کا مجوس قرار دیا گیا مجوس ایک آتش پرست قوم ہے جو دو اللہ مانتی ہے ایک وہ اللہ جو نیکی و بھلائی کا پیدا کرنے والا ہے، اس کو یزداں کہتے ہیں۔ دوسرا وہ اللہ جو برائی و بدی کا پیدا کرنے والا ہے، اس کو اہرمن یعنی شیطان فرماتے ہیں۔ لہٰذا جس طرح مجوسی تعداد الٰہ کے قائل ہیں اسی طرح قدریہ بھی بےانتہا خالقوں کے قائل ہیں اس لئے کہ ان کے نزدیک ہر بندہ اپنے افعال کا خالق ہے اسی طرح جتنے بندے ہوں گے اتنے بھی خالق ہی ہوں گے، نیز جس طرح قدریہ خالق خیر الگ اور خالق شر الگ مانتے ہیں اسی طرح قدریہ بھی فرماتے ہیں کہ خیر و بھلائی کا پیدا کرنے والا تو اللہ ہے اور شر و برائی کا پیدا کرنے والا شیطان اور انسانی نفس ہے۔ حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو اس فرقہ سے کلیۃ اجتناب کرنا ضروری ہے اگر وہ بیمار ہوجائیں تو ان کی عیادت کے لئے نہیں جانا چاہیے اگر وہ مرجائیں تو ان کے جنازہ میں شریک نہ ہونا چاہیے گویا غمی خوشی کسی موقع پر بھی ان کے ساتھ نہ رہنا چاہیے اور نہ ان کے ساتھ کسی قسم کا معاشرتی میل جول رکھنا جائز ہے۔ چنانچہ وہ حضرات جو اس جماعت کو کافروں کے زمرہ میں داخل کرتے ہیں اس حدیث کو اپنے ظاہری معنی پر محمول کرتے ہیں یعنی مسلمانوں کو ان کے ساتھ میل جول رکھنے سے منع کرتے ہیں۔ اور جو حضرات ان کو کافر نہیں بلکہ فاسق فرماتے ہیں وہ اس حدیث کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس حدیث کا مقصد اس جماعت کی گمراہی و ضلالت کو بیان کرنا اور ان کی زجر و ملامت میں شدت کا اظہار کرنا ہے۔ لیکن حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی فرماتے ہیں کہ محققین کا قول یہی ہے کہ نہ تو ان کی عیادت میں جائے اور نہ ان کے جنازہ میں شریک ہوا اور جہاں تک ہو سکے ان سے قطع تعلق رکھے۔
Top