مشکوٰۃ المصابیح - اذان کا بیان - حدیث نمبر 687
وَعَنْ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُوْنٍ قَالَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ ( صلی اللہ علیہ وسلم) ائْذَنْ لَنَا فِی الْاِخْتِصَاءِ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لَیْسَ مِنَّا مَنْ خَصَی وَلَا اَخْتَصَی اِنَّ خِصَاءَ اُمَّتِ الصِّیَامُ فَقَالَ ائْذَنُ لَنَا فِی السِّیَاحَۃِ فَقَالَ اِنَّ سِیَاحَۃَ اُمَّتِی الْجِھَادُ فِی سَبِیْلِ اﷲِ فَقَالَ اَئْذَنْ لَنَا فِی التَّرَھُّبِ فَقَالَ اِنَّ تَرَھُّبَّ اُمَّتِی الْجُلُوْسُ فِی الْمَسَاجِدِ اِنْتِظَارَ الصَّلَاۃِ۔ (رواہ فی شرح السنۃ)
مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان
اور حضرت عثمان ابن مظعون ؓ ( اسم گرامی عثمان بن مظعون اور کنیت ابوسائب ہے۔ جلیل القدر صحابی اور چودھویں مرد مسلمان ہیں۔ ہجرت حبشہ میں وہ اور ان کے صاحبزادے سائب شامل ہے اور ہجرت مدینہ میں شریک ہوئے مہاجرین میں سے پہلے صحابی ہیں جنہوں نے مدینہ میں ٢ ھ میں وفات پائی، رسول اللہ ﷺ نے آپ کی نعش کو بوسہ دیا تھا) کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! مجھ کو خصی (نامرد) ہونے کی اجازت دیجئے (تاکہ زنا میں مبتلا ہونے کا خدشہ نہ رہے) آپ ﷺ نے فرمایا۔ وہ آدمی ہم میں سے نہیں ہے (یعنی ہماری سنت کے راستے سے ہٹا ہوا ہے) جو کسی کو خصی کرے یا خود خصی ہوجائے (بلکہ) میری امت کے لئے خصی ہونا روزہ رکھنا ہے (کیونکہ روزہ رکھنے سے شہوت جاتی رہتی ہے) حضرت عثمان نے عرض کیا کہ پھر مجھے سیر و سیاحت کی اجازت عنایت فرمائی جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ میری امت کی سیاحی یہ ہے کہ اللہ کے راستہ میں جہاد کیا جائے۔ انہوں نے پھر عرض کیا کہ اچھا تو پھر مجھے راہب بننے کی اجازت دے دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا میری امت کا راہب بننا یہی ہے کہ مسجدوں میں نمازوں کے انتظار میں بیٹھا جائے۔ (شرح النسۃ)

تشریح
حضرت عثمان ابن مظعون ؓ کی خواہش یہ تھی کہ وہ ایسے طریقے اختیار کریں کہ جس سے دنیا کی لذتوں، نفسانی خواہشات اور شیطانی حرکات میں نہ مبتلا ہو سکیں تاکہ اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل ہو، چناچہ سب سے پہلے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات کی اجازت طلب کی کہ وہ اپنی قوت مردانگی کو ختم کر کے بالکل نامرد بن جائیں تاکہ زنا جیسے بڑے گناہ میں ملوث ہونے کا خدشہ نہ رہے رسول اللہ ﷺ نے ان کی اس خواہش کو انسانی فطرت اور اسلامی روح کے منافی سمجھتے ہوئے انہیں اس فعل سے باز رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اگر تم یہی چاہتے ہو کہ نفسانی خواہشات ختم ہوجائیں اور روحانی و عرفانی جذبات غالب رہیں تو اس کا آسان علاج یہ ہے کہ روزہ رکھا کرو کیونکہ روزہ شہوت کو ختم کرتا ہے اور تعلق مع اللہ کے جذبات کو جلا بخشتا ہے۔ پھر انہوں نے سیر و سیاحت کی اجازت طلب کی تاکہ اس مشغلے سے نفسانی خواہشات میں کمی آجائے۔ آپ ﷺ نے اس سے بھی منع فرمایا کیونکہ زمین پر گھومنا پھرنا اور دور دراز کا سفر اختیار کرنا صرف جہاد فی سبیل اللہ میں مطلوب و محمود ہے، محض سیر و سیاحت کی خاطر خواہ مخواہ دنیا کے چکر کاٹنا جیسا کہ بعض فقیر قسم کے لوگ کرتے ہیں عقلمندی کی بات نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی اخروی منفعت و بھلائی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے راہب بن جانے کی خواہش ظاہر کی جیسا کہ اہل کتاب میں وہ لوگ جو دیندار اور مذہبی قسم کے ہوتے ہیں دنیاوی علائق سے گوشہ نشینی اختیار کرلیتے ہیں اور دنیا کی تمام لذتوں اور مشغولیات کو چھوڑ دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ نہ عورتوں کے پاس جاتے ہیں اور نہ دوسرے لوگوں سے ملتے جلتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ان کی اس خواہش کو بھی رد کردیا کیونکہ رہبانیت اہل کتاب کا شیوہ ہے یہ اسلام کی تعلیمات اور اسلام کی فطرت کے بالکل منافی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہماری امت میں رہبانیت صرف اسی قدر ہے کہ مسجدوں میں نمازوں کے انتظار میں بیٹھا جائے کیونکہ اس طرح تمام لوگوں اور دنیا کی تمام چیزوں سے منہ پھیر کر پروردگار کی طرف توجہ ہوتی ہے اور اس پر بیشمار اجر و انعام ملتے ہیں اس کے مقابلے میں اہل کتاب کی جو رہبانیت ہے وہ بالکل بےفائدہ اور بےکار محض ہے کہ اس کا انجام دینی اور دنیوی اعتبار سے اچھا نہیں ہوتا۔
Top