مشکوٰۃ المصابیح - اذان کا بیان - حدیث نمبر 661
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَحَبُّ الْبِلَادِ اِلَی اللّٰہِ مَسَاجِدُھَا وَاَبْغَضُ الْبِلَادِ اِلَی اللّٰہِ اَسْوَاقُھَا۔ (صحیح مسلم)
مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان
اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا اللہ کے نزدیک تمام شہروں میں محبوب و پسندیدہ مقامات مساجد ہیں اور بدترین و ناپسندیدہ مقامات بازار ہیں۔ (صحیح مسلم)

تشریح
مسجدیں اللہ کی عبادت کرنے کی جگہ ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مساجد محبوب و پسندیدہ مقامات ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی مسجد میں ہوتا ہے رب قدوس اس پر اپنی رحمت کا سایہ کرتا ہے اور اسے خیر و بھلائی کی سعادت سے نوازتا ہے اس کے مقابلے میں بازار وہ جگہ ہے جہاں شیطان کا سب سے زیادہ تسلط رہتا ہے۔ حرص و طمع، خیانت و بددیانتی، جھوٹ اور اللہ کی یاد سے غفلت وہ چیزیں ہیں جو بازار کا جزو لاینفک اور شیطان کی خوشی کا ذریعہ ہیں۔ چناچہ اللہ کے نزدیک بازار بد ترین و ناپسندیدہ مقامات ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی اپنی ناگزیر ضروریات کی تکمیل کے علاوہ محض سیر و تفریح کی غرض سے بازاروں میں رہتا ہے اس پر محرومی و برائی کا سایہ رہتا ہے اور وہ اللہ کی رحمت سے دور ہوتا ہے۔ یہاں ایک اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ بت خانے، شراب خانے اور چکلے وغیرہ تو بازار سے بھی بد ترین ہیں پھر انہیں اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ اور مبغوض ترین مقامات کیوں نہیں کہا گیا ہے؟ بازار کو کیوں کہا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بازاروں کو قائم کرنے کا حکم شارع کی جانب سے ہے اور یہ چیزیں ایسی ہیں جن کو بنانے اور رکھنے کا حکم شارع کی جانب سے نہیں ہے لہٰذا ارشاد کا مطلب یہ ہے جن مقامات کو بنانا اور قائم رکھنا جائز ہے ان میں سے بد ترین اور ناپسند یدہ مقام بازار ہے۔
Top