مشکوٰۃ المصابیح - اذان کا بیان - حدیث نمبر 651
وعَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا اُقِےْمَتِ الصَّلٰوۃُ فَلَا تَاْتُوْھَا تَسْعَوْنَ وَاْتُوْھَا تَمْشُوْنَ وَعَلَےْکُمُ السَّکِےْنَۃَ فَمَا اَدْرَکْتُمْ فَصَلُّوْا وَمَا فَاتَکُمْ فَاَتِمُّوْا متفق علیہ و فی روایۃ لِمُسْلِمٍ فَاِنَّ اَحَدَکُمْ اِذَا کَانَ یَعْمِدُ اِلٰی الصَّلٰوۃِفَھُوَ فِی الصّلٰوۃِ۔
اذان کا بعض احکام کا بیان
اور حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا جب نماز کی تکبیر ہوجائے تو تم (جماعت میں شامل ہونے کے لئے) دوڑتے ہوئے نہ آؤ بلکہ وقار و طمانیت کے ساتھ اپنی چال آؤ، جس قدر نماز تم کو (امام کے ساتھ) مل جائے پڑھ لو اور جو فوت ہوجائے (امام کے سلام کے بعد اٹھ کر) اسے پوری کرلو (صحیح البخاری و صحیح مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں اس لئے کہ جب تم میں سے کوئی نماز کا ارادہ کرلیتا ہے تو اس کو (حکماً ) نماز ہی میں شامل سمجھا جاتا ہے۔

تشریح
عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب نماز کھڑی ہوجاتی ہے تو وہ لوگ جو دیر سے مسجد پہنچتے ہیں نماز میں شامل ہونے کے لئے اور خصوصاً اس وقت جب کہ امام رکوع میں چلا جاتا ہے بہت بےت کے طریقے سے بھاگتے ہوئے آتے ہیں اور نماز میں شریک ہوجاتے ہیں ایسے لوگوں کو اس حدیث سے متنبہ ہونا چاہئے کہ ان کا یہ طریقہ سراسر منشاء شریعت کے خلاف ہے۔ چناچہ نہ صرف یہ کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جماعت کھڑی ہوجانے پر بھاگ کر آنا جائز نہیں ہے بلکہ علماء کرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ نماز کے لئے دوڑ کر آنا کمزوری عقل اور غفلت کی علامت ہے کیونکہ نماز کے لئے مستعدی اور چستی اس طرح تو شریعت کی نظر میں قابل تعریف ہوگی کہ اگر کسی کو تکبیر اولیٰ کے فوت ہونے یا کسی رکعت کے چھوڑ جانے کا خوف ہو تو وہ پہلے ہی جلدی کرلیا کرے اور جماعت شروع ہونے سے پہلے مسجد پہنچ جایا کرے۔ (حضرت شیخ عبدالحق)۔ ملا علی قاری (رح) فرماتے ہیں کہ علماء کرام کے ہاں اس بارے میں اختلاف ہے کہ اگر کسی آدمی کو تکبیر اولیٰ کے فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو تو وہ دوڑتا ہوا آئے یا نہیں؟ چناچہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ ایسا آدمی دوڑ کر آسکتا ہے کیونکہ حضرت عمر فاروق ؓ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ بقیع میں تھے کہ انہوں نے مسجد سے تکبیر کی آواز سنی تو دوڑتے ہوئے مسجد کی طرف آئے۔ اور بعض علماء نے یہ مناسب قرار دیا ہے کہ ایسے آدمی کو اس حدیث کے پیش نظر وقار و طمانیت کے ساتھ ہی چل کر مسجد آنا چاہئے کیونکہ جو آدمی نماز کا ارادہ کرتا ہے تو گویا وہ نماز ہی میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اتنی بات سمجھ لینی چاہئے کہ یہ حکم ان لوگوں کے لئے ہوگا جو نادانستہ یا کسی مجبوری و معذوری کی بناء پر لیٹ ہوجائے ورنہ اگر کوئی آدمی دانستہ نماز میں آنے کے لئے دیر کرے تو وہ اس میں شامل نہیں۔ بہر حال اس سلسلے میں صحیح اور مناسب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی تاخیر سے مسجد میں پہنچے تو اسے چاہئے کہ وہ جماعت میں شریک ہونے کے لئے وقار و طمانیت کے ساتھ تیز تیز چل کر آئے بالکل بےت کے طریقے سے دوڑتا ہوا نہ آئے تاکہ اس حدیث پر عمل بھی ہوجائے اور تکبیر اولیٰ کا ثواب بھی ہاتھ سے نہ جائے۔ اسی طرح نماز جمعہ کا حکم بھی یہی ہے کہ اگر کسی آدمی کو مسجد پہنچنے میں دیر ہوجائے اور اس بات کا یقین ہو کہ اگر جلدی نہ کی تو امام سلام پھیر دے گا اور میں نماز سے رہ جاؤں گا تو اسے تیزی سے آکر امام کے ساتھ نماز میں شریک ہوجانا چاہئے۔
Top