مشکوٰۃ المصابیح - اذان کا بیان - حدیث نمبر 642
وَعَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا سَمِعَ الْمِؤَذِّنَ یَتَشَھَّدُ قَالَ وَ اَنَا وَاَنَا۔ (ابوداؤد)
اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان
اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ جب مؤذن کو شہادتین کہتے ہوئے سنتے تو فرماتے اور میں بھی اور میں بھی۔ (ابوداؤد)

تشریح
یعنی جب مؤذن اذان میں اشھد ان لا الہ الا اللہ، اشھدان محمد الرسول اللہ کہتا ہے تو آنحضرت ﷺ شہادتین کے جواب میں دو مرتبہ فرماتے واناوانا (اور میں بھی اور میں بھی) یعنی جس طرح تم اللہ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ کی رسالت کی گواہی دے رہے ہو اسی طرح میں بھی وحدانیت الٰہی اور رسالت محمد کی گواہی دیتاہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ تمام امت کی طرح خود آنحضرت صلی اللہ علیہ بھی اپنی رسالت کی گواہی دینے کے مکلف تھے۔ اب اس میں اختلاف ہے کہ آیا آپ ﷺ امت کے افراد کی طرح اشھد ان محمد رسول اللہ (میں گواہی دیتاہوں کہ محمد اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں) یہ کہہ کر گواہی دیتے تھے یا اشھد انی رسول اللہ (میں گواہی دیتاہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں) کہہ کر گواہی دیتے تھے؟ چناچہ علماء لکھتے ہیں کہ صحیح یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ امت کے افراد کی طرح اپنی رسالت کی گواہی دیتے تھے جیسا کہ ابھی حدیث نمبر (٢١) میں حضرت معاویہ ؓ کے بارے میں گزرا ہے کہ انہوں اذان کے جواب میں اشھد ان محمد الرسول اللہ کہا اور پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح فرماتے ہوئے سنا ہے (یعنی آپ ﷺ بھی اذان کے جواب میں اشھد ان محمد الرسول اللہ ہی کہتے تھے)۔ اس طرح حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی اس روایت میں اور حضرت معاویہ ؓ کی روایت میں چونکہ تعارض پیدا ہوتا ہے اس لئے کہا جائے گا کہ کبھی تو آپ ﷺ اسی طرح فرماتے ہوں گے جیسا کہ حضرت معاویہ ؓ نے بیان کیا اور کبھی اس طرح فرماتے ہوں گے جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ یہاں بتارہی ہیں۔
Top