مشکوٰۃ المصابیح - اذان کا بیان - حدیث نمبر 622
وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرِوبْنِ الْعَاصِص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا ےَقُوْلُ ثُمَّ صَلُّوْا عَلَیَّ فَاِنَّہُ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ صَلٰوۃً صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ بِھَا عَشْرًا ثُمَّ سَلُواللّٰہَ لِیَ الْوَسِےْلَۃَ فَاِنَّھَا مَنْزِلَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ لَا تَنْبَغِیْ اِلَّا لِعَبْدٍ مِّنْ عِبَادِ اللّٰہِ وَاَرْجُوْا اَنْ اَکُوْنَ اَنَا ھُوَ فَمَنْ سَاَلَ لِیَ الْوَسِےْلَۃَ حَلَّتْ عَلَےْہِ الشَّفَاعَۃُ۔ (صحیح مسلم)
اذان اور اذان کا جواب دینے کی فضیلت کا بیان
اور حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن عاص ؓ راوی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا جب تم مؤذن کی آواز سنو تو (اس کے جواب میں) اس کے الفاظ کو دہراؤ اور پھر (اذان کے بعد) مجھ پر درود بھیجو کیونکہ جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اس کے بدلے میں اللہ اس پر دس مرتبہ رحمت نازل فرماتا ہے پھر (مجھ پر درود بھیج کر) میرے لئے (اللہ سے) وسیلے کی دعا کرو۔ وسیلہ جنت کا ایک (اعلیٰ ) درجہ ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندہ کو ملے گا اور مجھ کو امید ہے کہ وہ بندہ خاص میں ہوں گا لہٰذا جو آدمی میرے لئے وسیلے کی دعا کرے گا (قیامت کے روز) اس کی سفارش کرنا مجھ پر ضروری ہوجائے گی۔ (صحیح مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جب مؤذن اذان کہے تو تم بھی مؤذن کے ساتھ اذان کے کلمات دہراتے جاؤ البتہ چند کلمات ایسے ہیں جن کو بعینہ دہرانا نہیں چاہئے بلکہ ان کے جواب میں دوسرے کلمات کہنے چاہیں جس کی تفصیل آئندہ حدیث میں آرہی ہے چناچہ فجر کی اذان میں جب مؤذن الصلوۃ خیر من النوم کہے تو اس کے جواب میں صَدَقْتَ وَ بَرَرْتَ َو بِالْحَقِّ نَطَقْتَ (یعنی تم نے سچ کہا ہے اور خیر کثیر کے مالک ہوئے اور تم نے سچ بات کہی) کہنا چاہئے۔ وسیلہ اصل میں اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے مطلوبہ چیز کو خاص کیا جائے اور اس کے سبب سے مطلوبہ چیز کا قرب حاصل ہو چناچہ جنت کے ایک خاص اور اعلیٰ درجے کا نام وسیلہ اسی لئے ہے کہ جو آدمی اس میں داخل ہوتا ہے اسے باری تعالیٰ عزاسمہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور اس کے دیدار کی سعادت میسر آتی ہے نیز جو فضیلت اور بزرگی اس درجے والے کو ملتی ہے وہ دوسرے درجے والوں کو نہیں ملتی۔ آپ ﷺ کا ارجو (یعنی مجھ کو امید ہے) فرمانا عاجزی اور انکساری کے طور پر ہے کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ تمام مخلوق سے افضل و بہتر ہیں تو یہ درجہ یقینا آپ ﷺ ہی کے لئے ہے۔ کوئی دوسر اس درجے کے لائق کیسے ہوسکتا ہے؟ لہٰذا اس لفظ کی تاویل یہ کی جائے گی کہ یہ یقین سے کنایہ ہے یعنی مجھے یہ یقین ہے کہ یہ درجہ مجھے ہی حاصل ہوگا۔
Top