مشکوٰۃ المصابیح - اذان کا بیان - حدیث نمبر 614
عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ زَیْدِ بْنِ عَبْدِرَبِّہِ قَالَ لَمَّا اَمَرَرَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم بِالنَّا قُوْسِ یُعْمَلُ لِیُضْرَبَ بَہٖ لِلنَّاسِ لِجَمْعِ الصَلَاۃِ طَافِ بِی وَاَنَا نَائِمٌ رَجُلٌ یَحْمِلُ نَاقُوْسًا فِی یَدِہٖ فَقُلْتُ یَا عَبْدَاﷲ اَتَبِیْعُ النَّاقَوْسَ قَالَ وَمَا تَصْنَعُ بِہٖ قُلْتُ نَدْعُوْ بِہٖ اِلَی الصَّلَۃِ قَالَ اَفَلَا اَدُلْکَ عَلَی مَاھُوَ خَیْرٌ مِنْ ذٰلِکَ فَقُلْتُ لَہ، بَلُی قَالَ فَقَالَ تَقُوْلُ اﷲُ اَکْبَرُ اِلَی اٰخِرِہٖ وَکَذَا الْاِ قَامَۃَ فَلَمَّا اَصْبَحْتُ آتَیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَاَخْبَرْ تُہ، بِمَا رَأَیْتُ فَقَالَ اِنَّھَا لَرُوْیَا حَقٌ اِنَّ شَآءَ اﷲُ تَعَالٰی فَقُمْ مَعَ بِلَالٍ فَأَلْقِ عَلَیْہِ مَا رَأَیْت فَلْیُؤَذِّنْ بِہٖ فَاِنَّہُ اَنْدٰی صَوْتًا مِنْکَ فَقُمْتُ مَعَ بِلَالٍ فَجَعَلْتُ اُلْقِیْہٖ عَلَیْہِ وَیُؤَذِّنُ بِہٖ قَالَ فَسَمِعَ بِذٰلِکَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَھُوَ فِیْ بَیْتِہٖ فَخَرَجَ یَجُرُّر دَأَہ، یَقُوْلُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ فَقَدْ رَأَیْتُ مِثْلَ مَأُرِیَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَ الدَّرِامِیُّ وَ ابْنُ مَاجَۃُ اِلَّا اَنَّہُ لَمْ یَذْکُرِ الْاِ قَامَۃَ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ ھٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ لَکِنَّہُ لَمْ یُصَرِّحْ قِصَّۃَ النَّا قَوْسِ۔
اذان کا بیان
اور حضرت عبداللہ ابن زید بن عبدربہ ؓ فرماتے ہیں کہ جب سرور کائنات ﷺ نے ناقوس بنائے جانے کا حکم دیا تاکہ نماز کی جماعت میں لوگوں کے حاضر ہونے کے لئے اسے بجایا جائے تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی اپنے ہاتھ میں ناقوس لئے ہوئے (جاتا) ہے میں نے اس آدمی سے کہا کہ بندہ خدا! کیا تم یہ ناقوس بیچو گے؟ اس آدمی نے کہا کہ تم اس کا کیا کرو گے؟ میں نے کہا کہ ہم اسے بجا کر لوگوں کو نماز ( کی جماعت) کے لئے بلایا کریں گے۔ اس نے کہا کہ کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتادوں؟ میں نے کہا کہ ہاں ضرور بتاؤ! اس آدمی نے کہا کہ کہو اللہ اکبر تک اس نے اذان بتا کر پھر اسی طرح اقامت بھی بتائی، جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور جو کچھ خواب میں دیکھا تھا آپ ﷺ سے بیان کیا، آپ ﷺ نے (خواب سن کر) فرمایا کہ انشاء اللہ تعالیٰ خواب سچا ہے، اب تم بلال ؓ کے ساتھ کھڑے ہو کر جو کچھ خواب میں دیکھا ہے انہیں بتائے جاؤ اور وہ اذان کہیں کیونکہ وہ تم سے بلند آواز ہیں۔ چناچہ میں بلال ؓ کے ساتھ کھڑا ہو کر انہیں سکھلاتا گیا اور وہ اذان دیتے رہے۔ روای فرماتے ہیں کہ، حضرت عمر ابن خطاب ؓ نے جب اپنے مکان میں اذان کی آواز سنی تو (جلدی کی بنا پر) اپنی چادر کھینچتے ہوئے مکان سے باہر نکلے اور یہ کہتے ہوئے (رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں) حاضر ہوئے کہ یا رسول اللہ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا ہے ( یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ الحمد اللہ (یعنی سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں) یہ حدیث ابوداؤد، دارمی اور ابن ماجہ نے نقل کی ہے مگر ابن ماجہ نے تکبیر کا ذکر نہیں کیا اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے لیکن انہوں نے ناقوس کے قصے کی تصریح نہیں کی۔

تشریح
حدیث کے پہلے جزء کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ناقوس بجانے کا حکم دے دیا تھا۔ بلکہ یہاں حکم کا مطلب یہ ہے کہ جب اس سلسلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے مشورہ کیا اور کوئی مناسب تجویز ذہن میں نہیں آئی تو آپ ﷺ نے ناقوس بجانے کا حکم دینے کا ارادہ فرمایا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللہ ابن زید کے ؓ کو خواب کے ذریعے اس کی نوبت نہ آنے دی۔ یہ حدیث حنفیہ کے مسلک کی موید ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تکبیر اور اذان کے کلمات میں کوئی فرق نہیں ہے جس طرح اذان کے کلمات کو سوائے شروع میں اللہ اکبر اور آخر میں لا الہ الا اللہ کے دو دو مرتبہ کہا جاتا ہے اسی طرح تکبیر کے کلمات کو بھی دو مرتبہ کہا جاتا ہے البتہ تکبیر میں صرف قد قامت الصلوۃ کا اضافہ ہے جو اذان میں نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ ابن زید ؓ کے خواب کو سن کر رسول اللہ ﷺ نے اس کی تصدیق فرمائی کہ یہ خواب سچا ہے اب اس تصدیق کا تعلق یا تو وحی سے ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اس خواب کے سچا ہونے کی خبر دے دی تھی اس لئے آپ ﷺ نے بھی اسے حق کہا یا پھر آپ ﷺ نے اجتہاد کی بناء پر اس خواب کو سچا مانا۔ اس موقعہ پر آپ ﷺ کا انشاء اللہ کہنا برکت اور اظہار طمانیت کے طور پر تھا۔ نہ کہ شک کے لئے۔ اذان کی آواز سن کر حضرت عمر فاروق ؓ نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر جو یہ کہا کہ میں نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا تھا تو ہوسکتا ہے کہ انہوں نے یہ بات اس وقت کہی ہو جب انہیں معلوم ہوگیا ہو کہ یہ اذان حضرت عبداللہ ابن زید ؓ کے خواب کے نتیجے میں کہی گئی ہے یا پھر انہیں اس خواب کا علم مکاشفہ کے ذریعے ہوگیا ہوگا۔ نووی (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ مؤذن کا بلند آواز اور خوش گلو ہونا مستحب ہے۔ آخر میں اتنی بات اور جان لیجئے کہ اذان کی مشروعیت ٢ ھ میں ہوئی ہے مگر کچھ علماء کی تحقیق یہ ہے کہ اذان ہجرت کے پہلے سال مشروع ہوئی ہے۔
Top