مشکوٰۃ المصابیح - اذان کا بیان - حدیث نمبر 612
وَعَنْ زِیَادِ بْنِ الْحَارِثِ الصُّدَائِیِّ قَالَ اَمَرَنِی رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ اَذِنْ فِی صَلٰوۃِ الْفَجْرِ فَاَذَّنْتُ فَاَرَا دَ بِلَالٌ اَنْ یُقِیْمَ فَقَالَ رَسُْولُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلماِنَّ اَخَاصُدَاءِ قَدْ اَذَّنَ وَمَنْ اَذَّنَ فَھُوَ یُقِیْمُ۔ (رواہ الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ)
اذان کا بیان
حضرت زیاد بن حارث صدائی ؓ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے مجھے فجر کی نماز کے لئے اذان کہنے کا حکم دیا۔ چناچہ میں نے اذان کہی، پھر حضرت بلال ؓ نے تکبیر کہنی چاہی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ صدائی کے بھائی نے اذان کہی تھی اور جو اذان کہے اسی کو تکبیر بھی کہنی چاہئے۔ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)

تشریح
اخاء صداء یعنی صدائی کے بھائی سے مراد زیاد ابن حارث صدائی ہیں، عرب میں قاعدہ تھا جو آدمی جس قبیلے سے تعلق رکھتا تھا اسے اس قبیلہ کا بھائی کہا جاتا ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) کے نزدیک اس حدیث کے مطابق غیر مؤذن کو تکبیر کہنا مکروہ ہے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک مکروہ نہیں ہے کیونکہ یہ ثابت ہے کہ اکثر و بیشتر حضرت ابن ام مکتوم ؓ اذان کہتے تھے اور حضرت بلال ؓ تکبیر کہتے تھے۔ امام صاحب (رح) کے نزدیک یہ حدیث اس بات پر محمول ہے کہ اگر غیر مؤذن تکبیر کہنا چاہئے تو مؤذن سے اجازت لے لے۔ اگر مؤذن کو کسی دوسرے کی تکبیر کہنا ناگوار ہو تو پھر غیر مؤذن کو تکبیر کہنا مناسب نہیں ہے۔
Top