مشکوٰۃ المصابیح - اذان کا بیان - حدیث نمبر 610
وَعَنْ بِلَالٍ قَالَ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا تُثَوِّبَنَّ فِیْ شَیْءٍ مِنَ الصَّلٰوۃِ اِلَّا فِیْ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ وَقَالَ التِّرْمِذِیُّ اَبُوْاِسْرَائْیْلَ الرَّاوِیُ لَیْسَ ھُوَ بِذَالِکَ الْقَوِیُّ عِنْدَاَھْلِ الْحَدِیْثِ۔
اذان کا بیان
اور حضرت بلال ؓ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ فجر کی نماز کے علاوہ اور کسی نماز میں تثویب نہ کرو۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ، ) اور حضرت امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں کہ (اس حدیث کے راوی) ابواسرائیل محدثین کے نزدیک قوی (یعنی قابل اعتبار) نہیں ہیں۔

تشریح
تثویب وہ اعلام ہوتا ہے جس سے پہلے کوئی اعلام ہوچکا ہو اور اس کی غرض اور اس سے پہلے کے اعلام کی غرض ایک ہو۔ مثلاً پہلے اعلام سے لوگوں کو نماز کے لئے بلانا مقصود ہو تو اس اعلام سے بھی یہی مقصود ہو۔ تثویب کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ فجر کی اذان میں الصلوۃ خیر من النوم کہنا، یہ تثویب اس لئے ہے کہ ایک مرتبہ تو حی علی الصلوۃ کہہ کر لوگوں کو نماز کے لئے بلایا گیا پھر دوبارہ الصلوۃ خیر من النوم سے لوگوں کو آگاہ کیا گیا۔ یہ تثویب رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں رائج تھی اور مسنون یہی ہے پھر اس کے بعد کوفہ کے علماء نے اذان و تکبیر کے درمیانی وقفے میں حی علی الفلاح کہنا رائج کیا، اس کے بعد ہر فرقہ و طبقہ کے لوگوں نے اپنے اپنے عرف کے مطابق کچھ نہ کچھ طریقہ تثویب کے طور پر رائج کیا مگر یہ تمام تثویبیں فجر کی نماز ہی کے لئے رائج کی گئیں، کیونکہ فجر کا وقت نیند اور غفلت کا وقت ہوتا ہے۔ پھر آخر میں متاخرین علماء نے تمام نمازوں کے لئے تثویب رائج کی اور اسے بنظر استحسان دیکھا حالانکہ متقدمین کے نزدیک یہ مکروہ ہے کیونکہ یہ احداث ہے اور بدعت ہے چناچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی اس کا انکار بایں طور منقول ہے کہ ایک آدمی تثویب کہتا تھا آپ ؓ نے اس کے بارے میں فرمایا کہ اخر جوا ھذا المبتدع من المسجد یعنی اس بدعتی آدمی کو مسجد سے نکال باہر کرو!۔ حضرت عمر فاروق ؓ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک دن جب کہ وہ مسجد میں موجود تھے مؤذن کو غیر فجر میں تثویب کرتے ہوئے سنا تو مسجد سے باہر نکل آئے اور دوسروں سے بھی کہا کہ اس آدمی کے سامنے نہ رہو، باہر نکل آؤ کیونکہ یہ بدعتی ہے۔
Top