مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4792
عن أبي هريرة قال سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم أي الناس أكرم ؟ فقال أكرمهم عند الله أتقاهم . قالوا ليس عن هذا نسألك . قال فأكرم الناس يوسف نبي الله ابن نبي الله ابن خليل الله . قالوا ليس عن هذا نسألك . قال فممن معادن العرب تسألوني ؟ قالوا نعم . قال فخياركم في الجاهلية خياركم في الإسلام إذا فقهوا . متفق عليه
خاندانی وذاتی شرافت کا حسن، علم دین سے ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون شخص زیادہ معزز و مکرم ہے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ معزز و مکرم وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار و متقی ہے یعنی اگر تمہارے سوال کا مطلب یہ ہے کہ خاندانی عظمت باپ دادا کی بڑائی اور اپنے فضائل و اچھی عادات سے قطع نظر ذاتی بزرگی و کرامت کیا چیز تو ہے جان لو کہ وہ تقوی ہے لہذا جو شخص لوگوں میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے وہی سب سے زیادہ معزز و مکرم ہے خواہ وہ اپنے حسب و نسب، خاندانی عظمت وجاہت اور اپنے اوصاف و خصائل کے اعتبار سے کم تر ہو یا برتر، صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا مطلب یہ نہیں ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر تم ذاتی بزرگی و کرامت کے بارے میں نہیں پوچھ رہے تو اس اعتبار سے انسانوں میں سب سے زیادہ شریف و بزرگ حضرت یوسف ہیں جو اللہ کے نبی (حضرت یعقوب کے بیٹے، اللہ کے (حضرت اسحق کے پوتے اور اللہ کے دوست حضرت ابراہیم کے پڑپوتے ہیں یعنی حضرت یوسف میں کئی طرح کی شرافت و بزرگیاں جمع ہیں کہ خود بھی نبی ہیں اور ان تین پشتوں میں نبوت رہی ہے ان کے پردادا کو خلیل اللہ کا لقب ملا ہے کہ اللہ نے ان کو خالص دوست قرار دیا ہے پھر وہ علم دانائی، حسن و جمال، عفو و کرم اخلاق و احسان، عدل و انصاف اور دینی دنیاوی سرداری و حکمرانی کے اوصاف سے بھی متصف تھے لہذا اس اعتبار سے وہ انسانوں میں سب سے زیادہ بزرک و شریف انسان تھے، صحابہ نے عرض کیا کہ آپ سے ہمارے سوال کا یہ مطلب نہیں ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم عربوں کی خاندانی شرافت اور ذات و حسب کی اعلی خصوصیات کے اعتبار سے پوچھ رہے ہو؟ کہ اہل عرب جو اپنے اور باپ دادا کے کارناموں ذاتی بزرگی و عزت اور اس طرح کے اور دوسرے اوصاف کے ذریعہ ایک دوسرے سے کے سامنے اظہار فخر کرتے ہیں اور اپنی بزرگی و برائی کا دعوی کرتے ہیں نیز وہ اپنے میں ایک دوسرے کی عزت و شرافت کا معیار تقوی اور نسب کے بجائے مذکورہ اوصاف و خصوصیات کو قرار دیتے ہیں تو ان میں واقعتا سب سے زیادہ معزز و مکرم کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا ہاں ہمارے سوال کا مطلب یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تو سنو! تم میں سے جو لوگ زمانہ جاہلیت میں سب سے بہتر تھے وہی اسلام میں سب سے بہتر ہیں جبکہ وہ فقیہ ہوں (یعنی تم میں سے جو لوگ زمانہ جاہلیت میں اپنی خاندانی شرافت شریف النفسی بہادری، سرداری اور عمدہ اخلاق و عادات کے اعتبار سے سب سے پسندیدہ اور سب سے بہتر شمار کیتے جاتے تھے اسلام کے زمانہ میں بھی وہی لوگ سب سے زیادہ پسندیدہ اور سب سے بہتر ہیں بشرطیکہ وہ اسلامی احکام و شرائع کے سمجھنے والے اور دین کا علم حاصل کرنے والے ہوں۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
ا نحضرت ﷺ کے آخری جواب کا مطلب یہ تھا کہ زمانہ جاہلیت میں جن لوگوں کی ذات اور شخصیت کی وجہ سے ان کو سب سے بہتر سمجھا جاتا تھا وہ لوگ اپنی انہی خصوصیات کی بنا پر زمانہ اسلام میں بھی معزز و مکرم قرار دیئے جائیں گے بشرطیکہ انہوں نے ایمان و اسلام قبول کر کے دین کا علم اور شریعت کے احکام و مسائل حاصل کئے ہوں فرق یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ان پر کفر کا سایہ معصیت کی تاریکی اور جہل کا غبار چھایا ہوا تھا اور خواہش نفس کے دام فریب میں مبتلا تھے اور اس اعتبار سے ان کی ذاتی شرافت وصفات کی کوئی حثییت نہیں تھی مگر اب ایمان و اسلام کی پاکیزگی اور عبادات و علم دین کے نور نے ان کی ذات و شخصیت کو نکھار دیا ہے ان کی زندگی کو روشن کردیا ہے اور ان کو حق کا تابعدار بنادیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ معاون سے مراد وہ لوگوں کی اپنی ذات و شخصیات ہیں جو عمدہ وصفات و اعلی خصوصیات سے متصف ہوں جیسا کہ کتاب میں یہ روایت نقل کی جا چکی ہے کہ الناس معادن کمعادن الذھب والفضۃ الخ۔۔ یعنی لوگوں کی بھی کانیں ہوتی ہیں جیسے سونے اور چاندی کی کانیں، پس جو خاندان و افراد اپنی اعلی خصوصیات کے اعتبار سے زمانہ جاہلیت میں سب سے بہتر شمار کئے جاتے تھے اسلام کے زمانہ میں بھی وہی سب سے بہتر ہیں بشرطیکہ وہ دین کا علم حاصل کریں۔
Top