مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4778
وعن زيد بن أرقم عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إذا وعد الرجل أخاه ومن نيته أن يفي له فلم يف ولم يجئ للميعاد فلا إثم عليه . رواه أبو داود والترمذي
ایفاء عہد کی نیت ہو اور وعدہ پورا نہ ہو سکے تو گناہ نہیں ہوگا
اور حضرت زید بن ارقم ؓ آنحضرت ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب کوئی آدمی اپنے کسی بھائی سے کوئی وعدہ کرے اور اس کے تئیں اس وعدہ کو پورا کرنے کا قصد رکھتا ہو مگر کسی عذر کے سبب اس وعدہ کو پورا نہ کرسکے اور وقت موعود پر نہ آئے تو گناہگار نہ ہوگا۔ (ابوداؤد، ترمذی)

تشریح
اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص وعدہ کو پورا کرنے کی نیت رکھنے کے باوجود اس وعدہ کو پورا نہ کرے تو وہ گناہگار نہیں ہوتا اس سے یہ بات بھی سمجھی جاتی ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی وعدہ کیا اور نیت یہ رکھی کہ اس وعدہ کو پورا نہیں کروں گا تو وہ گناہگار ہوگا خواہ اس وعدے کو پورا کرے نہ کرے کیونکہ زبان سے وعدہ کرنا اور دل میں اس کے خلاف کرنے ارادہ کرنا منافقت کی خصلت ہے۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ بغیر کسی اور بلا کسی امر مانع کے وعدہ خلافی کرنا حرام ہے اور مذکورہ بالا ارشاد گرامی کی مراد بھی یہی ہے مجمع البحار میں لکھا ہے کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ممنوع کام کا وعدہ کرے تو اس وعدہ کو پورا نہیں کرنا چاہیے۔ ایفائے عہد واجب ہے یا مستحب؟ آئمہ فقہ کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ وعدہ پورا کرنا واجب ہے یا مستحب۔ چناچہ جمہور علماء بشمول حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی کا قول یہ ہے کہ وعدہ پورا کرنا مستحب ہے اور پورا نہ کرنا سخت مکروہ ہے البتہ گناہ نہیں اس کے برخلاف ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ وعدہ کو پورا کرنا واجب ہے حضرت عمر بن عبدالعزیز بھی اسی جماعت میں شامل ہیں۔ منقول ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا معمول تھا کہ جب کوئی وعدہ کرتے تو انشاء اللہ کہہ لیتے اور آنحضرت ﷺ کے بارے میں بھی منقول ہے کہ آپ لفظ عسی فرماتے تھے۔
Top