مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4771
وعن ابن عباس أن رجلين صليا صلاة الظهر أو العصر وكانا صائمين فلما قضى النبي صلى الله عليه وسلم الصلاة قال أعيدا وضوءكما وصلاتكما وامضيا في صومكما واقضيا يوما آخر . قالا لم يا رسول الله ؟ قال اغتبتم فلانا
غیبت مفسد روزہ ہے
اور حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن دو آدمیوں نے جو روزہ دار تھے آنحضرت ﷺ کریم کے پیچھے ظہر یا عصر کی نماز پڑھی جب آنحضرت ﷺ نماز پڑھ چکے تو ان دونوں سے فرمایا کہ تم دونوں دوبارہ وضو کرو اپنی نماز کو لوٹاؤ اور اپنے اس روزے کو پورا کرو اور اس کے بدلے میں احتیاطا دوسرے دن کا روزہ رکھ لو۔ ان دونوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ایسا کیوں؟ یعنی وضو، نماز اور روزے کو لوٹانا کس سبب سے ہے؟ آپ نے فرمایا اس لئے کہ تم نے فلاں شخص کی غیبت کی ہے۔

تشریح
اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیبت وضو اور روزے کو توڑ دیتی ہے لیکن علماء نے لکھا ہے کہ یہ حدیث دراصل غیبت کی شدید مذمت اور غیبت کرنے والے کے حق میں سخت ترین زجر و تنبیہ کے طور پر ارشاد ہوئی ہے ورنہ حقیقت میں غیبت سے روزہ اور وضو ٹوٹتا نہیں تاہم غیبت کی وجہ سے وضو اور روزہ کا کمال وثواب ضرور کھویا جاتا ہے لیکن حضرت سفیان ثوری ؓ کے نزدیک غیبت، مفسدہ روزہ ہے، بہر حال حدیث سے یہ بات وضح ہوتی ہے کہ غیبت کی قباحت و برائی بہت زیادہ ہے اور احتیاط وتقوی کا تقاضا یہی ہے کہ اگر غیبت صادر ہوجائے تو وضو کی تجدید کرنی چاہیے بلکہ علماء نے بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص بہت زیادہ ہنسنے یا بہت زیادہ لا یعنی باتیں کرنے سے اس کے باطن پر طاری ہوگئی ہے نیز روزہ دار کو چاہیے کہ غیبت سے پوری طرح اجتناب کرے۔
Top