مشکوٰۃ المصابیح - آداب کا بیان - حدیث نمبر 4767
وعن عائشة قالت مر النبي صلى الله عليه وسلم بأبي بكر وهو يلعن بعض رقيقه فالتفت إليه فقال لعانين وصديقين ؟ كلا ورب الكعبة فأعتق أبو بكر يومئذ بعض رقيقه ثم جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم وقال لا أعود . روى البيهقي الأحاديث الخمسة في شعب الإيمان
لعنت کرنے کی برائی
اور حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ ایک دن آنحضرت ﷺ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ وہ حضرت ابوبکر اپنے کسی غلام پر لعنت کر رہے ہیں، آپ ان کی طرف متوجہ ہوگئے اور فرمایا کہ بھلا تم نے لعنت کرنے اور صدیقین کو بھی دیکھا ہے؟ (یعنی کیا تم نے کبھی بھی کوئی ایسے شخص کو دیکھا کہ جس میں بیک وقت یہ دو صفتیں یعنی لعانیت اور صدیقیت پائی جاتی ہیں حاصل یہ ہے کہ جو شخص صدیقیت کے مقام پر فائز ہو وہ لعنت کرنے والا نہیں ہوسکتا جیسا کہ یہ حدیث گزر چکی ہے کہ لا ینبغی لصدیق ان یکون لعانا، یعنی صدیق کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ لعنت کرنے والا ہو) نہیں رب کعبہ کی قسم یہ دونوں باتیں کسی ایک شخص میں ہرگز جمع نہیں ہوسکتیں، چناچہ حضرت ابوبکر ؓ نے یہ ارشاد سن کر اپنی اس تقصیر کے کفارہ کے طور پر اس دن اپنے بعض غلاموں کو آزاد کیا پھر معذرت خواہی کے لئے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں آئندہ کبھی ایسا کام نہیں کروں گا۔ (یعنی کسی کو لعنت نہیں بھیجوں گا) حضرت عمران بن حطان کی روایت سے لے کے اس حدیث تک ان پانچوں روایتوں کو بہیقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔
Top